سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

  • 336
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 222

سوال

لے پالک کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

لےپالک بچہ یا بچی جب جوان ہو جائیں تو ان کی شرعی حیثیت کیا ہو گی؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

لے پالک بچہ یا بچی اگر غیر محرم ہو اور بچہ جب عورتوں کے “معاملات“ سمجھنے لگے، تو اس سے پردہ کیا جائے گا۔ اسی طرح جب مردوں کے معاملات سمجھنے لگے تو اسے بھی اس گھر کے غیرمحرم افراد سے پردہ کرایا جائے ، اور نہ ان کے نام کے ساتھ اپنا نام لگایا جائے گا، بلکہ اصل باپ کا نام ہی لکھا جائے گا۔ ارشاد باری تعالی ہے: مَا جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِنْ قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ وَمَا جَعَلَ أَزْوَاجَكُمُ اللَّائِي تُظَاهِرُونَ مِنْهُنَّ أُمَّهَاتِكُمْ وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ ، ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا (الاٴحزَاب: 5،4) اپنی جن بیویوں کو تم ماں کہہ بیٹھتے ہو انہیں اللہ نے تمہاری (سچ مچ کی) مائیں نہیں بنایا، اور نہ تمہارے لے پالک لڑکوں کو (واقعی) تمہارے بیٹے بنایا ہے، یہ تو تمہارے اپنے منہ کی باتیں ہیں، اللہ تعالٰی حق بات فرماتا ہے اور وه سیدھی راه سجھاتا ہے ، . لے پالکوں کو ان کے (حقیقی) باپوں کی طرف نسبت کر کے بلاؤ ۔ اللہ کے نزدیک پورا انصاف یہ ہے پھر اگر تمہیں ان کے (حقیقی) باپوں کا علم ہی نہ ہو تو تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں، تم سے بھول چوک میں جو کچھ ہو جائے اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں ، البتہ گناہ وہ ہے جسکا تم ارادہ دل سے کرو ، اللہ تعالٰی بڑا ہی بخشنے والا ہے یعنی کسی کو ماں کہہ دینے سے وہ ماں نہیں بن جائے گی، نہ بیٹا کہنے سے بیٹا بن جائے گا، یعنی ان پر بنوت کے شرعی احکام جاری نہیں ہونگے۔ اس لئے اس کی اتباع کرو اور ظہار والی عورت کو ماں اور لے پالک کو بیٹا مت کہو، خیال رہے کہ کسی کو پیار اور محبت میں بیٹا کہنا اور بات ہے اور لے پالک کو حقیقی بیٹا تصور کر کے بیٹا کہنا اور بات ہے۔ پہلی بات جائز ہے، یہاں مقصود دوسری بات کی ممانعت ہے۔ اس حکم سے اس رواج کی ممانعت کر دی گئی جو زمانہ جاہلیت سے چلا آرہا تھا اور ابتدائے اسلام میں بھی رائج تھا کہ لے پالک بیٹوں کو حقیقی بیٹا سمجھا جاتا تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد کر کے بیٹا بنا لیا تھا زید بن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہہ کر پکارا کرتے تھے، حتی کہ قرآن کریم کی آیت ادعوھم لآبائھم نازل ہوگئی صحیح بخاری تفسیر سورۃ الاحزاب اس آیت کے نزول کے بعد حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے گھر میں بھی ایک مسئلہ پیدا ہوگیا، جنہوں نے سالم کو بیٹا بنایا ہوا تھا جب منہ بولے بیٹوں کو حقیقی بیٹا سمجھنے سے روک دیا گیا تو اس سے پردہ کرنا ضروری ہوگیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کی بیوی کو کہا کہ اسے دودھ پلا کر اپنا رضاعی بیٹا بنالو کیونکہ اس طرح تم اس پر حرام ہو جاؤ گی چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ صحیح مسلم ، کتاب الرضاع باب رضاعۃ الکبیر ابوداود ، کتاب النکاح ، باب فیمن حرم بہ هذا ما عندي والله اعلم بالصواب

فتوی کمیٹی

محدث فتوی

ماخذ:محدث فتویٰ کمیٹی