سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

  • 290
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 245

سوال

قضائے عمری کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

١- میں تہجد کی نماز میں قران کی کچھ بڑی سورتیں تلاوت کرنا چاہتا ہوں ۔کیا میں پاکٹ قران دیکھ کر قرات کر سکتا ہوں۔ ٢- کیا قضائے عمری ادا کرنا ضروری ہے ؟ جواب عنایت کرکے برائے مہربانی الجھن ختم کریں اللہ آپ کو جزائے خیر عطا کرے۔ آمین؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

۱۔نماز تہجد میں آپ قرآن سے دیکھ کر تلاوت کر سکتے ہیں ،اس میں کوئی حرج نہیں ہے،تمام اہل علم اس کی اجازت دیتے ہیں۔ معروف عالم دین مولانا عبد الستار حماد ہفت روزہ اہلحدیث[2جلد نمبر 39 ۔25 ذوالحجہ تا یکم محرم الحرام 1428 ھ 5 تا 11 جنوری 2008 ء] میں اس کا جواب دیتے ہوئے رقمطراز ہیں: ایسا کرنا جائز ہے لیکن اس کی عادت بنا لینا اچھا نہیں ہے ۔ احادیث میں ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ایک غلام ذکوان ، قرآن دیکھ کر ان کی امامت کراتا تھا ۔ ( صحیح بخاری تعلیقا کتاب الاذان باب امامۃ العبد والمولی قبل حدیث 692 ) ۔ اس سے متعلق حدیث کو حافظ ابن ابی شیبہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے ۔ ( فتح الباری ص692 ، ج 2 ) کچھ لوگ اس کو منع کہتے ہیں کہ ایسا کرنا عمل کثیر ہے جو نماز میں درست نہیں۔ لیکن عمل کثیر اگر نماز کی ضرورت کیلئے ہو تو علماء نے اسے جائز قرار دیا ہے ۔ اور یہ بھی کہ نماز میں بچہ کو اٹھایا جا سکتا ہے تو قرآن اٹھانے میں کیا قباحت ہے ؟ البتہ قرآن یاد کر کے پڑھنا ہی افضل ہے کیونکہ امت کا متواتر عمل یہی ہے ۔ ۲۔قضائے عمری شریعت سے ثابت نہیں ہے، بلکہ چھوڑی ہوئی نمازوں پر اللہ سے توبہ کرنا ضروری اور واجب ہے۔ جان بوجھ کر نماز چھوڑنا بہت بڑا گناہ اور جرم عظیم ہے ، بعض اہل علم تو ایسے شخص کی تکفیر کا فتوی دیتے ہیں۔ ایسے شخص پر توبہ کرنا لازم ہے کہ وہ اپنی چھوٹی ہوئی نمازوں کی اللہ سے اخلاص کے ساتھ پکی اور سچی توبہ کرے۔ اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا عزم کرے۔ امام ابن تیمیہ کے نزدیک جان بوجھ کر چھوڑی ہوئی نماز کی قضا مشروع نہیں ہے ، بلکہ اس پر توبہ فرض ہے۔ شیخ صالح العثمین نے بھی اسی موقف کو ترجیح دی ہے۔ اگر آپ مخلصانہ سچی توبہ کرکے آئندہ نمازیں پڑھنا شروع کر دیتےہیں تو اللہ سے امید ہے کہ وہ سابقہ گناہ کو معاف فرما دے گا۔ هذا ما عندي والله اعلم بالصواب

فتوی کمیٹی

محدث فتوی

ماخذ:محدث فتویٰ کمیٹی