سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

  • 279
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 242

سوال

نماز میں امام کا بآواز بلند اور مقتدی کا بآواز آہستہ تکبیر کہنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مفتی صاحب؛ نماز کی پہلی تکبیر امام اونچی آواز سے اور مقتدی آہستہ آواز سے کہنے کی دلیل کہاں سے مل سکتی ہے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس مسئلہ پر تفصیل تو بہت طویل ہے مگر یہاں مختصراً عرض ہے کہ اس مسئلہ پر نماز کی کیفیت کو بیان کرنے والی کئی ایک احادیث موجود ہیں جو اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ امام بلند آواز سے جبکہ مقتدی آہستہ آواز سے تکبیر کہے گا،اور یہ حکم فقط پہلی تکبیر کے ساتھ خاص نہیں ہے ،بلکہ اس میں ساری تکبیرات ہی آجاتی ہیں۔جسے سمجھنے کے لیے عقل صحیح کی ضرورت ہے۔ سیدنا ابو ہریرہ فرماتے ہیں: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلاةِ يُكَبِّرُ حِينَ يَقُومُ ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَرْكَعُ ، ثُمَّ يَقُولُ : سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ حِينَ يَرْفَعُ صُلْبَهُ مِنْ الرَّكْعَةِ ، ثُمَّ يَقُولُ وَهُوَ قَائِمٌ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْد ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَهْوِي ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَسْجُدُ ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ ، ثُمَّ يَفْعَلُ ذَلِكَ فِي الصَّلاةِ كُلِّهَا حَتَّى يَقْضِيَهَا ، وَيُكَبِّرُ حِينَ يَقُومُ مِنْ الثِّنْتَيْنِ بَعْدَ الْجُلُوسِ [رواه البخاري (789) ومسلم (392] . " رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم جب نماز كے ليے كھڑے ہوتے تو تكبير كہتے، پھر ركوع كرنے كے وقت تكبير كہتے، پھر جب ركوع سے اپنى پيٹھ اٹھاتے تو سمع اللہ لمن حمدہ كہتے، پھر كھڑے كھڑے يہ پڑھتے: " رَبَّنَا لَكَ الْحَمْد " پھر جب جھكتے تو تكبير كہتے، پھر جب سر اٹھاتے تو تكبير كہتے پھر جب سجدہ كرتے تو تكبير كہتے، اور جب اپنا سر اٹھاتے تو تكبير كہتے، پھر سارى نماز ميں اسى طرح كرتے حتى كہ نماز سے فارغ ہو جاتے، اور جب دو ركعتوں سے اٹھتے تو بيٹھنے كے بعد تكبير كہتے" یہ صحیح حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ امام نماز پڑھاتے وقت تکبیر اونچی کہے گا۔ سعید بن الحارث بیان کرتے ہیں: فَصَلّٰی بِنَا اَبُوْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیُّ فَجَہَرَ بِالتَّکْبِیْرِ حِیْنَ افْتَتَحَ الصَّلاَۃَ وَ حِیْنَ رَکَعَ وَ حِیْنَ قَالَ سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ وَ حِیْنَ رَفَعَ رَأْسَہٗ مِنَ السُّجُوْدِ وَ حِیْنَ سَجَدَ وَ حِیْنَ قَامَ بَیْنَ الرَّکْعَتَیْنِ حَتّٰی قَضٰی صَلاَتَہٗ عَلٰی ذٰلِکَ فَلَمَّا صَلَّی… فَقَالَ أَیُّہَا النَّاسُ! وَاللّٰہِ! مَا أُبَالِی اخْتَلَفَتْ صَلاَتُکُمْ اَوْ لَمْ تَخْتَلِفْ ہٰکَذَا رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّیْ )) [ مسند أحمد(۳/۱۸، ح : ۱۱۱۵۷)، صحیح ابن خزیمۃ (۱/۲۹۱، ح :۵۸۰)، بخاری (۸۲۵)، بیھقی (۲/۱۸، ح : ۲۲۷۶] ’’ہمیں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی تو انھوں نے نماز شروع کرتے وقت، رکوع کرتے وقت، سمع اللہ لمن حمدہ کہتے وقت، سجدہ سے سر اٹھاتے وقت، سجدہ کرتے وقت اور دو رکعتوں کے درمیان اٹھتے وقت تکبیر جہری کہی، حتیٰ کہ انھوں نے اسی طرح نماز مکمل کی، جب نماز ادا کر لی ۔۔ تو کہا: ’’اے لوگو! اللہ کی قسم! مجھے کوئی پروا نہیں کہ تمھاری نماز اس سے مختلف ہے، یا اس کے موافق، میں نے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘ یہ صحیح حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ امام نماز پڑھاتے وقت تکبیر اونچی کہے گا۔ عکرمہ کہتے ہیں میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا: ’’میں نے بطحا میں ظہر کی نماز ایک نادان بوڑھے کے پیچھے ادا کی، اس نے بائیس تکبیریں کہیں، جب سجدہ کرتا تھا اور جب سر اٹھاتا تھا تو تکبیر کہتا تھا۔‘‘ تو ابن عباس فرمانے لگے: ’’یہ ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔‘‘ [مسند أحمد(۱/۲۱۸، ح : ۱۸۸۶)، بخاری، کتاب الأذان، باب التکبیر إذا قام (۷۸۷)] یہ حدیث بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ امام تکبیر جہری کہے گا، ورنہ مقتدی کو کیسے پتا چلا کہ امام نے بائیس تکبیریں کہی ہیں، پھر ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت قرار دیا ہے۔ اس مفہوم کی حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری (۷۸۵) اور صحیح مسلم (۳۹۲) وغیرہ میں بھی موجود ہے۔ اسی طرح عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری (۷۸۴) وغیرہ میں موجود ہے۔ اسی طرح ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا مکبر بن کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکبیر لوگوں کو سنانا بھی اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ امام تکبیر جہری کہتا ہے اور مقتدی آہستہ۔ [ملاحظہ ہو بخاری،کتابالأذان، باب من أسمع الناس تکبیر الإمام (۷۱۲)، مسلم، کتاب الصلاۃ (۴۱۳)] زیدبن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’ہم نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کلام کیا کرتے تھے، ہم میں سے کوئی ایک اپنے ساتھ والے سے بات کر لیتا تھا، حتیٰ کہ یہ آیت نازل ہوگئی :{قومو للہ قانتین} ’’اللہ کے لیے فرماں بردار ہو کر کھڑے ہو جائو۔‘‘ توہمیں خاموش رہنے کا حکم دیا گیا اور کلام سے روک دیا گیا۔‘‘ [ مسلم، کتاب المساجد، باب تحریم الکلام … الخ (۵۳۹)،ترمذی مع تحفۃ الأحوذی (۲/۴۵۴) رقم (۴۰۵)] یہ حدیث بھی واضح کرتی ہے کہ مقتدی کا کام ہے کہ وہ امام کے پیچھے آواز بلند نہ کرے۔ اسی طرح جب معاویہ بن حکم السلمی رضی اللہ عنہ نے نماز میں ایک آدمی کی چھینک کے جواب میں (( یَرْحَمُکَ اللّٰہُ )) کہہ دیا تو صحابہ کرام نے اپنی رانوں پر ہاتھ مار کر انھیں چپ کرایا۔ جب انھوں نے دیکھا کہ دوسرے صحابہ انھیں خاموش کروا رہے ہیں تو وہ خاموش ہوگئے۔ بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں سمجھایا کہ نماز میں لوگوں کا کلام درست نہیں ہے۔ نماز تو تسبیح و تکبیر اور قراءت قرآن کا نام ہے۔ [مسلم، کتاب المساجد، باب تحریم الکلام … الخ (۵۳۷)، أبوداوٗد(۹۳۱)] یہ حدیث بھی واضح کرتی ہے کہ مقتدی کا کام امام کے پیچھے عدم جہر ہے، یہ اپنے اعمال آہستہ اور خاموشی سے سر انجام دے گا، ورنہ صحابہ کرام اپنے ہاتھ رانوں پر مار کر انھیں خاموش نہ کراتے، بلکہ زبان سے کہہ دیتے۔ بہر کیف کئی ایک احادیث صحیحہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ امام اپنی تکبیرات اور قراء ت جہری کرے گا اور مقتدی آہستہ اور سری۔ صرف کورمغز لوگوں کو حدیث دشمنی میں کچھ نظر نہیں آتا، چنانچہ بے جا اعتراضات کرتے رہتے ہیں اور لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ قرآن و حدیث سے مسائل حل نہیں ہوتے، بلکہ بعض علماء کی آراء سے تکمیل دین ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو ہدایت نصیب کرے اور قرآن و حدیث کا صحیح فہم نصیب فرمائے۔ (آمین) هذا ما عندي والله اعلم بالصواب

فتوی کمیٹی

محدث فتوی

ماخذ:محدث فتویٰ کمیٹی