سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

  • 257
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 240

سوال

نماز وتر کی تیسری رکعت میں رفع الیدین

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

علی اور عمران نے کاروبار میں پارٹنر شپ کی۔ علی ٥ لاکھ لے کر آیا اور عمران گڈ ول پر عمران کام جانتا تھا جب کے علی کچھ نہیں بناء کسی تحریری معاہدہ کے کام شروع کیا گیا اور نفع میں آدھا آدھا طے کر لیا گیا کاروبار میں نقصان ہو گیا اور علی کی رقم ڈوب گئ کاروبار بند ہو گیا اب علی کہتا ہے کی آدھا نقصان عمران مجھے دےگا یعنی ڈھائی لاکھ جب کے عمران کا کہنا ہے میں نقصان میں پارٹنر نہیں تھا لہذا میں نقصان نہیں دوگا عمران کا کہنا ہے کہ میری محنت اور ٹائم ضائع ہوا اور علی کی رقم لہذا برابر قرآن حدیث سے اس کا جواب مطلوب ہے کہ علی کی بات یا عمران کی بات صحیح ہے؟ جزاکم اللہ

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کاروبار کی اس شکل کو شریعت میں مضاربہ کہا جاتا ہے ۔اس میں ایک آدمی پیسہ لگاتا ہے جبکہ دوسرا محنت کرتا ہے اور منافع دونوں کے درمیان آدھا آدھا یا طے شدہ نسبت سے تقسیم ہوتا ہے۔آپ کا اس انداز سے کاروبا کرنا تو جائز اور درست تھا ،مگر پہلے ہی سب کچھ طے نہ کرنا ایک غلطی تھی ،جس کا خمیازہ آپ بھگت رہے ہیں۔آپ کو کاروبا شروع کرنے سے پہلے ہی شریعت کے مطابق سب کچھ طے کر کے لکھ لینا چاہئے تھا۔ کاروبار کی اس شکل میں اگر نقصان ہو جاتا ہے تو وہ مالک کا ہوتا ہےجس نے پیسہ لگایا ہے ،اوراس نقصان میں سےعامل پر کوئی تاوان نہیں ہوتا۔امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: "وَالْوَضِيعَةَ (الخسارة) فِي الْمُضَارَبَةِ عَلَى الْمَالِ خَاصَّةً , لَيْسَ عَلَى الْعَامِلِ مِنْهَا شَيْءٌ ; لِأَنَّ الْوَضِيعَةَ عِبَارَةٌ عَنْ نُقْصَانِ رَأْسِ الْمَالِ , وَهُوَ مُخْتَصٌّ بِمِلْكِ رَبِّهِ , لَا شَيْءَ لِلْعَامِلِ فِيهِ , فَيَكُونُ نَقْصِهِ مِنْ مَالِهِ دُونَ غَيْرِهِ ; وَإِنَّمَا يَشْتَرِكَانِ فِيمَا يَحْصُلُ مِنْ النَّمَاءِ" [المغني" (5/22)] مضاربہ میں خاص مال پر خسارہ ہے، اس میں سے عامل پر کچھ نہیں ہے۔کیونکہ خسارہ رأس المال سے عبارت ہے،اور وہ مال کے مالک کے ساتھ مختص ہےاس میں سے عامل پر کچھ نہیں ہے،اورنقصان اس کے ما ل سے ہوا ہے کسی اور کے مال سے نہیں،اور مال کی بڑھوتری (یعنی نفع)میں وہ دونوں شریک ہونگے۔ حتی کہ مضاربہ کے نقصان میں عامل کی شراکت کی شرط لگانا بھی درست نہیں ہے،اہل علم فرماتے ہیں کہ مضاربہ میں عامل پر رأس المال کی ضمانت لینا ایک فاسد شرط ہے۔ الموسوعة الفقهية" (38/63-64) مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں آپ کے کاروبا کا جو نقصان ہواہے وہ مالک (علی) کا ہے اور عامل (عمران)پر کسی قسم کا کوئی تاوان نہیں ہے۔ هذا ما عندي والله اعلم بالصواب

فتویٰ کمیٹی

محدث فتویٰ

ماخذ:محدث فتویٰ کمیٹی