سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

  • 252
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 360

سوال

غیر مسلموں کے ساتھ تجارت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نعمانہ خالد بنت خالد صدیق ، پنجاب یونیورسٹی شعبہ علو مِ اسلامیہ لاہور پاکستان میں ایم ۔اے علوم اسلامیہ کے لئے مقالہ بعنوان "مسلم معاشرے میں غیر مسلموں کی مصنوعات سے استفادہ۔دینی و معاشی اعتبار سے جائزہ" لکھ رہی ہوں۔ اس سلسلے میں آ پ کی مدد درکار ہے۔ برائے مہربانی سوال کا جواب مرحمت فرما کر سائل کی اعانت فرمائیں تا کہ حق کو پا لینا آسان ہو۔ سوال:آج کل مسلم معاشروں میں غیر مسلموں کی مصنوعات کا استعمال کثرت سے کیا جاتا ہے جبکہ یہ امر واضح ہے کہ غیر مسلم(مثلاً یہود و قادیانی) ان مصنوعات کی فروخت سے حاصل کیا جانے والا منافع مسلمانوں کے خلاف سازشوں اور مظلوم مسلمانوں پر ظلم و ستم کرنے پر خرچ کرتے ہیں۔ اس ضمن میں غیر مسلموں کے معاشی مقاطعہ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ نیز یہ بھی واضح فرما دیں کہ مسلمان اپنے ہاں غیر موجود مصنوعات اور معاشیات و سہولیات کی درآمد غیر مسلم ممالک سے کر سکتے ہیں؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگرچہ غیر مسلموں کے ساتھ تجارت کرنا جائز ہے بشرطیکہ اس میں کوئی حرام امر،یا فتنے کا اندیشہ نہ ہو۔نبی کریم بھی غیر مسلموں کے ساتھ معاملہ کر لیا کرتے تھے۔جب آپ فوت ہوئے تو آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس تیس صاع جو کے بدلے رہن رکھی ہوئی تھی۔ لیکن موجودہ حالات ،جن میں مسلمانوں کے خلاف آئے روز سازشوں کے جال بنے جارہے ہیں اور ہم سے منافع کما کر ہمارے ہی خلاف استعمال کیا جا رہا ہے اور ہمارے مسلمان بھائیوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔ہمیں ان کے ساتھ تجارت کی حوصلہ افزائی نہیں کرنی چائے۔اور ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا چاہئے۔کیونکہ ان حالات میں ان کے ساتھ تجارت کرنےمیں مسلمانوں کا نقصان ہے ،جس سے شریعت نے منع فرمایا ہے۔ حدیث نبوی ہے: لا ضرر ولا ضرار. [ابن ماجه] بتمام مسلمان ممالک کو چاہئے کہ وہ او آئی سی کے پلیٹ فارم سے اسلامی ممالک کی باہمی تجارت کو فروغ دیں۔تاکہ کسی مسلمان کا کوءی نقصان نہ ہو۔ ھذا ما عندی واللہ أعلم بالصواب

فتویٰ کمیٹی

محدث فتویٰ

ماخذ:محدث فتویٰ کمیٹی