سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

  • 24
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 335

سوال

السلام علیکم مفتی صاھب،

میرا سوال ہے کی اکثر دیکھنے میں آیا ہے کی باپ کے مرتے ہی وراثت کے مسئلے شروع ہو جاتے ہے، اور ایک بھائی دوسرے بھائی پر یہ الزام لگاتا ہے کی میں نے والد کے ساتھ زیادہ کام کیا ہے اس لئے مال پر میرا حق زیادہ ہے، کیا اسلام اس کی اجازت دیتا ہے کی کسی بھائی کو کم حصہ ملے اور کسی کو زیادہ ؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

1. کسی شخص کے فوت ہونے پر اس کی مذکر اولاد ترکہ میں برابر کی شریک ہوتی ہے، کسی کو دوسرے پر کسی قسم کی کوئی فوقیت نہیں ہے، نہ بڑے ہونے کی بناء پر، نہ زیادہ خدمت گزار ہونے کی بناء پر (اس کا اجر ان شاء اللہ روزِ قیامت ملے گا) نہ کسی اور وجہ کی بناء پر۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اولاد میں لڑکا اور لڑکی ہونے کے اعتبار سے تو فرق کیا ہے، لیکن لڑکوں اور لڑکیوں میں آپس میں کسی قسم کا کوئی فرق نہیں رکھا، فرمانِ باری تعالیٰ ہے: يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ‌ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ۔(سورة النساء:11) کہ اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے۔ 2. جہاں تک اس بات کا معاملہ ہے کہ اگر ایک بیٹے نے باپ کے ساتھ کام کیا ہے اور دوسرے نے نہیں کیا یا کسی نے زیادہ کام کیا ہے اور کسی نے کم! تو یہ دیکھنا ہوگا کہ انہوں نے یہ کام کس نیت سے کیا ہے؟ والد کے کہنے پر کیا ہے، اس کی خدمت، مدد کرنے کیلئے یا اسے راضی کرنے کیلئے کیا ہے (تو اس کی جزاء اللہ کے پاس ہے) اور یہ سارا کاروبار باپ کا ترکہ شمار ہوگا ویسے بھی ظاہر ہے کہ بیٹا اپنے اخراجات وغیرہ کیلئے اس میں سے خرچ وغیرہ تو ضرور لیتا ہوگا۔ اور اگر انہوں نے یہ کام بنیت مضاربت یا مشارکت کیا ہے، اور اس کے باقاعدہ ثبوت اور گواہ موجود ہیں تو طے شدہ شرائط کے مطابق یہ ان بیٹوں کا قرض شمار ہوگا جو انہوں نے اپنے باپ سے لینا ہے، لہٰذا ترکہ کی تقسیم سے پہلے پہلے باپ کے ترکہ سے یہ قرض بیٹوں کو واپس کیا جائے گا اور پھر باقی جائداد ورثا میں ان کے حصوں کے مطابق کسی کمی بیشی کے بغیر تقسیم کر دی جائے گی۔ اور اگر پہلے سے کوئی نیت نہیں تھی تب پھر عرف کے مطابق پہلے دونوں صورتوں میں سے کوئی ایک معاملہ کیا جائے گا۔ واللہ تعالیٰ اعلم!

ماخذ:محدث فتویٰ کمیٹی