سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

  • 131
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 325

سوال

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

مرد کی شرم گاہ منہ میں ڈالنے کے بارے میں ہمارا مؤقف ہےکہ اگر اس میں درج ذیل امور وارد نہ ہوں تو اس عمل کے قائل کو مطعون نہیں کیا جاسکتا اور اس پر کوئی فتویٰ نہیں لگتا۔ (1) مرد کی شرمگاہ یعنی (عضو تناسل) کی نالی میں پیشاب کی ہلکی سی مقدار جمع رہتی ہے جب عورت اسے منہ میں ڈالتی ہے تو مذی کے ساتھ پیشاب کی یہ مقدار بھی اس کے منہ میں چلے جاتی ہے گویا وہ ایک نجس مادہ کو زبان لگاتی ہے اور یہ حرام ہے۔ (2) اگربالفرض صرف مذی یا منی کا اخراج ہی ہو تب بھی وہ ان دونوں کو زبان لگاتی ہے جبکہ حرام جاندار کے سب اعضاء خاص طور پر اندرونی سیالی اعضا ء حرام ہوتے ہیں۔ اس طرح انسان کا گوشت اور خون بھی دوسرے مسلمان پر حرام ہے او رمذی اور منی گوشت کا حصہ ہیں۔ یہ بھی اسی طرح حرام ہوں گے۔ نوٹ: اگر ان دو قباحتوں سے بچا جاسکے تو عضا تناسل کو منہ میں ڈالنے میں کوئی حرج نہیں۔ عورت کی شرم گاہ (1) عورت کی شرم گاہ کا معاملہ مردسے مختلف ہے ،کیونکہ اس کی شرمگاہ میں پیشاب اور قُبل(دخول کی جگہ) کے سوراخ کے قریب قریب ہونے کی وجہ سے پیشاب کے پوری شرمگاہ پر اثرات ہوتے ہیں اگر خاوند صرف دخول والی جگہ پر زبان لگاتا ہے تب بھی یہ جگہ ہر وقت رطوبت سے تر رہتی ہے اور شہوت کے وقت مذی کے اخراج سے مزید رطوبت شدہ ہوجاتی ہے لہٰذا اس پر زبان لگانے سے اس مادہ کا لگنا لازمی امر ہوتا ہے اور اس سے بچنا مشکل ہے۔ لہٰذا عورت کی شرمگاہ یعنی دخول کے سوراخ میں زبان لگانا درست نہیں ،کیونکہ پیچھے ہم ذکر کر آئے ہیں کہ انسان کی جسمانی اندرونی رطوبت بھی گوشت کے حکم میں ہے ہاں اس میں تھوک اور دودھ کا استثناء ہے جو کہ احادیث میں وارد ہے کہ حضرت عائشہؓ کا تھوک نبیﷺ کے تھوک سے ملا اور بچے کو دودھ پلایا جاتا ہے۔ جواز کی صورت (1) مرد کی شرمگاہ اگر رطوبت سے بچتے ہوئے منہ میں ڈال لی جائے تو بیوی کے لیے جائز ہے ۔ (2) عورت کی شرمگاہ کا ظاہری حصے کو زبان لگائی جاسکتی ہے کیونکہ اندرونی حصہ بروقت رطوبت زدہ ہوتا ہے۔ واللہ اعلم

فتویٰ کمیٹی

محدث فتوی

ماخذ:محدث فتویٰ کمیٹی