سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

  • 122
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 309

سوال

د وسروں سے آن لائن استخارہ کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آج کل آن لائن استخارہ کے پروگرام چل رہے ہیں لوگ ان کو فون کرکے چند منٹوں میں اپنے مسائل کا حل معلوم کرلیتے ہیں کیا یہ عمل ازروئے شریعت درست ہے۔؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

استخارہ کا مقصد اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا اور خیر طلب کرنا ہوتاہے اور شرعی طریقہ یہی ہے کہ انسان خود اللہ تعالیٰ سے اپنے کسی کام کے بارے میں خیر طلب کرے۔ اور اس کے بعد ظاہری اسباب پر مطمئن ہوکر اس کام کو کرگزرے اور یہ دوسری دعاؤں کی طرح ایک دعا ہے کہ اگر ا للہ تعالیٰ نے قبول کرلی تو وہ اس کام کے بارے میں کرنے یا نہ کرنے کا خود ہی اسباب پیدا کردے گا۔ لیکن اس میں درج ذیل چیزوں کا خیال رہنا چاہیے۔ 1۔ ضروری نہیں اللہ تعالیٰ ہر ایک کی دعا قبول کرے۔ 2۔ کسی بھی اشارےکو اللہ کی طرف یقینی طور پر منسوب نہیں کیا جاسکتا کہ یہ اسی کی طرف سے ہے۔ آج کل استخارہ کے بارے میں لوگوں کے مختلف مؤقف اور طریقے وجود میں آچکے ہیں جو سراسر شریعت سے ثابت نہیں۔مثلاً : 1۔ استخارہ کسی اور سے بھی کروایا جاسکتا ہے۔ 2۔ استخارہ کرنے والے کو ضرور خواب میں کچھ اشارہ ملتا ہے۔ 3۔ استخارہ کے بعد رکاوٹ یا تائیدی اسباب اس استخارہ کے نتیجہ میں اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں۔ 4۔ آن لائن ایک دو منٹ میں بھی استخارہ سے مسائل کا حل کروایا جاسکتا ہے۔ یہ وہ شارٹ کٹ راستے ہیں جن کا استخارہ کے شرعی مفہوم سے کوئی تعلق نہیں او رایسے طریقے اور اس کے نتائج کو اس طریقہ سے سمجھنا درست نہیں۔ بس یہ یاد رہے کہ استخارہ ایک اللہ تعالیٰ سے خیر طلب کرنے کی دعا ہے اور یہ دعا اللہ تعالیٰ قبول بھی کرسکتا ہے اور ردّ بھی ۔ اگر قبول کرلے تو اس کی قبولیت کا تعین یا پتہ بندے کو نہیں چل سکتا ہاں اگر جس کام کے متعلق اس نے استخارہ کیا تھا اگر وہ صحیح ثابت ہوا تو سمجھے اللہ تعالیٰ نے اس کی راہنمائی فرمائی اور اگر وہ کام الٹ پڑ جائے جیسا کہ روز مرہ زندگی میں ایسے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں کہ کسی بچی کا رشتہ استخارہ کرکے ہوا لیکن بعد میں وہ رشتہ ٹوٹ گیا یاکوئی جھگڑا پیدا ہوگیا تو ایسے معاملات میں اللہ کی طرف نسبت صحیح نہیں ہوگی۔ لہٰذا استخارہ کے متعلق صحیح مؤقف یہی ہے کہ جس کا کام ہے وہ خود اس دعا کو پڑھے اور ظاہری اسباب کے شرعی اور دنیوی تمام تقاضے پورے کرتے ہوئے اگر دل مطمئن ہو تو اس کام کو کرڈالے او راس کے نتائج اللہ پر چھوڑ دے۔واللہ اعلم وبالله التوفيق

فتویٰ کمیٹی

محدث فتویٰ

ماخذ:محدث فتویٰ کمیٹی