سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(390) نا امیدی کے بعد کی رضاعت

  • 9867
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1083

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اس عورت کے دودھ کے بارے میں کیا حکم ہے جو مایوسی کی عمر کو پہنچ گئی ہو اور پھر اسے دودھ اتر آئے اور وہ کسی بچے کو پانچ یا اس سے زیادہ رضعات دو سال کی عمر کے اندر پلا دے ‘ کیا یہ بھی حرمت کا سبب ہو گا اور اگر اس دودھ پلانے والی عورت کا کوئی شوہر نہ تو بچے کا رضاعی باپ کون ہو گا ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رضاعت موجب حرمت ہے اور اس سے بھی وہی حرمت ثابت ہوتی ہے جو نسب سے ثابت ہوتی ہے ‘ مذکورہ رضاعت چونکہ پانچ رضعات پر مشتمل ہو اور دو سال کی عمر کے اندر ہے ‘ لہٰذا یہ عورت اس بچے کی رضاعی ماں ہو گی کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَأُمَّهـٰتُكُمُ الّـٰتى أَر‌ضَعنَكُم...٢٣﴾... سورةالنساء

’’اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہو وہ بھی تم پر حرام ہیں۔‘‘

دودھ اگر مایوسی کی عمر کے بعد پیا ہو تو پھر بھی اس کی رضاعی ماں ہو گی اور پھر اگر یہ عورت شوہر والی ہو تو یہ بچہ اس کا اور اس کے شوہر کا جس کی طرف دودھ منسوب ہے ‘ بیٹا ہو گا اور اگر یہ عورت شوہر والی نہ ہو کہ اس نے ابھی شادی ہی نہ کی ہو تو پھر یہ اس بچے کی ماں ہو گی جسے اس نے دودھ پلایا ہو اور اس بچے کا رضاعی باپ کوئی نہ ہوگا۔

اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کہ بچے کی رضائی ماں تو ہو لیکن اس کا کوئی رضاعی باپ نہ ہو اور اس میں بھی تعجب کی کوئی بات نہیں کہ کسی بچے کا کوی رضاعی باپ تو ہو لیکن ماں نہ ہو پہلی صورت میں اگر عورت نے اس بچے کو دو رضعے پلائے ہوں اور پھر اس کے شوہر نے اسے طلاق دے دی ہو اور عدت مکمل ہونے کے بعد اس نے کسی دوشرے شوہر سے شادی کر لی ہو ‘ اور اس حاملہ ہو گئی ہو اور پھر اس کے بچے کو جنم دیا ہو اور پھر اس نے سابق بچے کو باقی رضعات بھی پلا دیئے ہوں تو یہ اس کی رضاعی ماں بن جائیگی کیونکہ اس بچے نے اس عورت پے انچ رضاعات دودھ پی لیا ہے البتہ اس کا رضاعی باپ کوئی نہ ہوا کیونکہ اس نے ایک آدمی کی طرف سے منسوب دودھ سے پانچ یا زیادہ رضعات نہیں پیئے

جہاں تک دوسرے مسئلہ کا تعلق ہے اور وہ یہ ہے کہ بچے کا رضاعی باپ ہو تو لیکن اس کی ماں نہ ہو تو اس کی مثال ایسے ہے جیسے ایک شخص کی دو بیویاں ہوں ‘ ا ن میں سے ایک نے اس بچے کو رضعے اور دوسری نے باقی رضعے پلائے ہوں تو اس حالت میں یہ بچہ اس شخص کا تو رضاعی بیٹا ہوا کیونکہ اس نے اس کی طرف منسوخ دودھ میں سے پانچ رضعات پیئے ہیں لیکن اس کی کوئی رضاعی ماں نہ ہوگی کیونکہ اس نے پہلی عورت سے دو رضعے اور دوسری سے تین رضعے پیئے ہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب الرضاع: جلد 3  صفحہ 362

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ