سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(356) عورت کا اپنے شوہر کو حرام قرار دینا ظہار نہیں

  • 9811
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 2060

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جب کوئی عورت اپنے شوہر سے یہ کہے کہ اگر تو نے یہ کام کیا تو ‘ تو مجھ پر میرے باپ کی طرح حرام ہے ‘ یا عورت اپنے شوہر پر لعنت بھیجے ‘ یا شوہر اس عورت سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگے ‘ یا صورتحال اس کے برعکس ہو تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عورت اگر اپنے شوہر کو حرام قرار دے لے ‘ یا اسے اپنے کسی محرم کے ساتھ تشبیہ دے تو یہ قسم کے حکم میں ہے ‘ ظہار کے حکم میں نہیں ہے ‘ کیونکہ قرآن کی نص سے یہ ثابت ہے کہ ظہار مردوں کی طرف سے عورتوں سے ہوتا ہے ‘ اس سلسلہ میں عورت کو قسم کا کفارہ ادا کرنا چاہیے ‘ جو یہ ہے کہ شہر میں معمول کی خراک سے نصف صاع ‘ جس کا وزن تقریباً ڈیڑھ کلو ہے ‘ فی کس کے حساب سے دس مسکینوں کو دیا جائے ‘ یا انہیں صبح یا شام کا کھانا کھلایا جائے ‘ یا انہیں ایسے کپڑے دے دیے جائیں جن میں نماز ادا کی جا سکتی ہو تو یہ قسم کا کفارہ ہے ‘ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّـهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَـٰكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الْأَيْمَانَ ۖ فَكَفَّارَ‌تُهُ إِطْعَامُ عَشَرَ‌ةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِ‌يرُ‌ رَ‌قَبَةٍ ۖ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ۚ ذَٰلِكَ كَفَّارَ‌ةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ ۚ وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ...﴿٨٩﴾... سورة المائدة

’’اللہ تمہاری بے ارادہ قسموں پر تم سے مواخذہ نہیں کریگا لیکن پختہ قسموں پر جن کیخلاف کرو گے مواخذہ کریگا ‘ تو اس کا کفارہ دس محتاجوں کو اوسط درجے کا کھانا کھلانا ہے ‘ جو تم اپنے اہل و حیال کو کھلاتے ہیں یا ان کو کپڑے دینا ‘ یا ایک غلام آزاد کرنا ہے اور جس کو یہ میسر نہ ہو وہ تین روزے رکھے ‘ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم کھا لو اور اسے توڑ دو اور تم کو چاہیے کہ اپنی قسموں کی حفاظت کرو۔‘‘

عورت کا کسی ایسی چیز کو حرام قرار دینا جو اللہ تعالیٰ نے اس کیلئے حلال قرار دی ہو ‘ قسم کے حکم میں ہے ‘ اسی طرح بیوی کے سوا مرد کا بھی کسی ایسی چیز کو حرام قرار دینا جو اللہ تعالیٰ نے اس کیلئے حلال قرار دی ہو ‘ قسم کے حکم میں ہے ‘ کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّ‌مُ مَا أَحَلَّ اللَّـهُ لَكَ ۖ تَبْتَغِي مَرْ‌ضَاتَ أَزْوَاجِكَ ۚ وَاللَّـهُ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿١ قَدْ فَرَ‌ضَ اللَّـهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمَانِكُمْ ۚ وَاللَّـهُ مَوْلَاكُمْ ۖ وَهُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ ﴿٢﴾... سورة التحريم

’’اے پیغمبر جو چیز اللہ نے تمہارے لئے جائز کی ہے تو اس سے کنارہ کشی کیوں کرتے ہو ؟ کیا اس سے اپنی بیویوں کو خوشنودی چاہتے ہو ؟ اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ‘ اللہ نے تم لوگوں کیلئے تمہاری قسموں کا کفارہ مقرر کر دیا ہے اور اللہ ہی تمہارا کاز ساز ہے اور وہ دانا اور حکمت والا ہے۔‘‘

مرد اگر بیوی کو حرام قرار دے لے ‘ تو علما کے صحیح ترین ‘ قول کے مطابق اس کا حکم ظہار کا ہے ‘ جب کہ تحریم کسی ایسی شرط کے ساتھ مشروط یا معلق ہو جس سے مقصود برانگیختہ کرنا ‘ یا منع کرنا ‘ یا تصدیق کرنا ‘ یا تکذیب کرنا نہ ہو ‘ مثلاً یہ کہنا کہ ’’تو مجھ پر حرام ہے‘‘ یا ’’میری بیوی مجھ پر حرام ہے‘‘ یا یہ کہنا کہ جب رمضان آئیگا تو میری بیوی مجھ پر حرام ہو گی تو اس طرح کی باتوں کا حکم ایسے ہی ہے ‘ جیسے اس بات کا حکم کہ تو مجھ پر میری ماں کی پشت کی طرح ہے ‘ یہ ایک حرام بامعقول اور جھوٹی بات ہے ‘ یہ بات کہنے والے کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرنی چاہئے۔ ظہار کا کفارہ بیوی کو چھونے سے پہلے ادا کیا جائے ‘ جیسا کہ سورہ مجادلہ کی حسب ذیل آیات میں مذکور ہے:

﴿الَّذِينَ يُظَاهِرُ‌ونَ مِنكُم مِّن نِّسَائِهِم مَّا هُنَّ أُمَّهَاتِهِمْ ۖ إِنْ أُمَّهَاتُهُمْ إِلَّا اللَّائِي وَلَدْنَهُمْ ۚ وَإِنَّهُمْ لَيَقُولُونَ مُنكَرً‌ا مِّنَ الْقَوْلِ وَزُورً‌ا ۚ وَإِنَّ اللَّـهَ لَعَفُوٌّ غَفُورٌ‌ ﴿٢﴾... سورة المجادلة

’’جو لوگ تم سے اپنی عورتوں کو ماں کہہ دیتے ہیں وہ ان کی مائیں نہیں ہو جاتیں ان کی مائیں تو وہی ہیں جن کے بطن سے وہ پیدا ہوئے ‘ بے شک وہ نامعقول اور جھوٹی بات کہتے ہیں اور اللہ بڑا معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے۔‘‘

اور پھر فرمایا:

﴿وَالَّذِينَ يُظَاهِرُ‌ونَ مِن نِّسَائِهِمْ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا قَالُوا فَتَحْرِ‌يرُ‌ رَ‌قَبَةٍ مِّن قَبْلِ أَن يَتَمَاسَّا ۚ ذَٰلِكُمْ تُوعَظُونَ بِهِ ۚ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ‌ ﴿٣ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَ‌يْنِ مُتَتَابِعَيْنِ مِن قَبْلِ أَن يَتَمَاسَّا ۖ فَمَن لَّمْ يَسْتَطِعْ فَإِطْعَامُ سِتِّينَ مِسْكِينًا...﴿٤﴾... سورة المجادلة

’’اور جو لوگ اپنی بیویوں کو ماں کہہ بیٹھیں ‘ پھر اپنے قول سے رجوع کر لیں تو ان کو ہم بستر ہونے سے پہلے ایک غلام آزاد کرنا ضروری ہے ‘ مومنو! اس حکم سے تم کو نصیحت کی جاتی ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے خبردار ہے ‘ جس کو غلام نہ ملے وہ مجامعت سے پہلے متواتر  دو مہینے کے روزے رکھے جس کو اس کا بھی مقدور نہ ہو اسے ساٹھ محتاوں کو کھانا کھلانا چاہئے۔‘‘

جو شخص غلام آزاد کرنے اور روزے رکھنے سے عاجز ہو تو اس کیلئے واجب ہے کہ وہ شہر میں معمول کی خوراک میں سے نصف صاع ڈیڑھ کلو کے حساب سے ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔

عورت کا اپنے شوہر پر لعنت بھیجینا یا اس سے پناہ مانگنا حرام ہے اسے اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرنی اور اپنے شوہر سے معافی مانگنی چاہیے۔ لیکن اس سے اس کا شوہر اس پر حرام نہیں ہو گا اور نہ اس کی وجہ سے اس پر کوئی کفارہ ہی لازم ہو گا ‘ اسی طرح اگر کوئی شوہر اپنی بیوی پر لعنت بھیجے یا اس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہیے تو اس سے اس کی بیوی اس پر حرام نہیں ہو گی ہاں البتہ اسے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرنی چاہیے اور اپنی بیوی سے یہ بات معاف کروا لینی چاہیے کیونکہ کسی مسلمان کیلئے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی مسلمان مرد یا عورت پر لعنت بھیجے خواہ وہ اس کی بیوی ہی کیوں نہ ہو کیونکہ یہ کبیرہ گناہ ہے ‘ کسی عورت کیلئے بھی یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر یا کسی اور مسلمان پر لعنت بھیجے کیونکہ نبی اکرم ؐ نے فرمایا ہے:

((لعن المؤمن كقتله )) ( صحيح البخاري)

’’مومن پر لعنت بھجینا اسے قتل کرنے کی طرح ہے۔‘‘

آپ نے یہ بھی فرمایا:

((إن اللعانين لايكونون شهداء ولاشفعاء يوم القيامة )) (صحيح مسلم)

’’لعنت کرنے والے قیامت کے دن گواہ اور شفاعت کنندہ نہیں بن سکیں گے۔‘‘

نیز رسول اللہ ؐ نے یہ بھی فرمایا:

((سباب المسلم فسوق وقتاله كفر )) (صحيح البخاري)

’’مسلمان کو گالی دینا فسق اور اسے قتل کرنا کفر ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں ہر اس چیز سے عافیت اور سلامتی عطا فرمائے جو اسے ناراض کرنے والی ہو۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب الظہار: جلد 3  صفحہ 334

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ