سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(333) یہ طلاق واقع نہیں ہوئی

  • 9788
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1156

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر تو نے میرے مال میں سے میرے بیٹے کو پیسے دیے تو تجھے طلاق‘ میرا ان الفاظ سے مقصد یہ تھا کہ وہ میرے بیٹے کو پیسے نہ دے‘ کیونکہ وہ ان پیسوں کے ساتھ اپنی شادی کے موقع پر گانے بجانے والیوں کو لانا چاہتا تھا اور میں نے اپنے مالی حالات کی وجہ سے اس کی اس بات کو مسترد کر دیا تھا‘ میں نے اپنے وسائل کے مطابق اس کی شادی میں مقدور بھر تعاون کیا‘ لیکن جو چیزیں اصل شادی سے زائد ہیں یا مکملات شادی میں شامل ہیں میں ان پر خرچ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا‘ الغرض مذکورہ بالا الفاظ کہنے سے میرا مقصود اپنی بیوی کو طلاق دینا نہیں تھا‘ امید ہے اس صورت میں اپنے فتویٰ سے نوازیں گے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر آپ کا مقصد بیوی کو منع کرنا تھا کہ وہ آپ کے مال میں سے بیٹے کو کچھ بھی نہ دے اور آق کا مقصود طلاق دینا نہ تھا تو بیٹے کو پیسے دے دینے کی صورت میں علما کے صحیح ترین قول کے مطابق آپ پر قسم کا کفارہ واجب ہے اور بیوی پر توبہ کرنا واجب ہے کیونکہ اس طرح کے امور سے آپ کے حکم کی مخالفت اور نافرمانی کرنے کا کوئی حق حاصل نہ تھا بلکہ اس پر نیکی کے کام میں سمع و اطاعت ’’فرمانبرداری‘‘ واجب تھی۔ ہم آپ کو یہ وصیت بھی کریں گے کہ آئندہ اس طرح کی طلاق کے الفاظ استعمال نہ کریں‘ اللہ تعالیٰ آپ دونوں کے حالات کی اصلاح فرمائے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب الطلاق : جلد 3  صفحہ 318

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ