سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(330) طلاق میں مشروط ‘ شرط کا تابع ہے

  • 9785
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 2324

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص نے غصے کی حالت میں اپنی بیوی سے کہا کہ تم آج یا کل سے اپنے آپ کو مطلقہ سمجھو اور اس سے اس کا ارادہ اس دن سے تھا جس دن وہ عدالت میں اپنے طلاق کے کیس کو پیش کریگا‘ اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

غصے کی حالت انسان پر اس وقت طاری ہوتی ہے جب کوئی چیز اسے بھڑکانے اور اس کے اعصاب کو انگخیت کرنے (ابھارنے) والی ہو اور ایک شخص نے جب نبی اکرم ؐ کی خدمت میں یہ عرض کیا‘ یا رسول اللہ مجھے وصیت فرمایے‘ آپ نے فرمایا:

((لاتغضب )) ( صحيح البخاري )

’’غصے نہ ہوا کرو۔‘‘

آپ نے یہ بات کئی بار ارشاد فرمائی کہ ’’غصے نے ہوا کرو‘‘۔ نبی اکرم ؐ نے ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ غصہ آگ کا ایک ایسا انگارہ ہے ‘ جسے شیطان انسان کے دل پر پھینکتا ہے ‘ غصے کے وقت اپنے آپ کو قابو پانے والے شخص کی تعریف کرتے ہوئے آپ ؐ نے فرمایا:

((ليس الشديد بالصرعة ، إنما الشديد الذي يملك نفسه عند الغضب )) ( صحيح البخاري )

’’بہادر وہ نہیں جو پچھاڑ دے ‘ بلکہ بہادر وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے۔‘‘

ان احادیث کے پیش نظر انسان کو چاہئے کہ جب وہ غصے کو محسوس کرے تو اس چیز  کو استعمال کرے جو اس کے غصے کو ختم کر دے ‘ مثلاً اس حالت میں وہ ’’اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم‘‘ پڑھ لے‘ چنانچہ بخاری و مسلم نے ردایت کیا ہے کہ دو آدمیوں نے نبی اکرم ؐ کے پاس ایک دوسرے کو گالیاں دیں ان میں سے ایک بے حد غضب ناک تھا‘ غصے کی وجہ سے اس کا چہرہ سرخ اور اس کی رگیں پھولی ہوئی تھیں ‘ نبی اکرم ؐ نے اس کی طرف دیکھا تو فرمایا:

((إني لأعلم كلمة لو قالها لذهب ذا عنه ، أعوذ بالله من الشيطان الرجيم)) ( صحيح البخاري)

’’میں ایک ایسا کلمہ جاتا ہوں کہ یہ اگر اسے کہہ تلے تو اس کا غصہ ختم ہو جائے ‘ وہ کلمہ ہے ’’اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔‘‘

نبی ؐ کے اس ارشاد کو سننے والا ایک شخص اس کے پاس آ کر کہنے لگا: کیا تجھے معلوم ہے کہ رسول اللہ ؐ نے ابھی ابھی کیا فرمایا ہے؟ اس نے کہا نہیں ‘ مجھے معلوم نہیں‘ اس نے اسے بتایا کہ آپ نے یہ فرمایا ہے کہ ’’میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ یہ شخص اگر اسے کہہ لے تو اس کا غصہ ختم ہو جائے‘ وہ کلمہ ’’اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم ‘‘ ہے‘ لہٰذا ہر انسان کو چاہئے کہ وہ غصے کے وقت اپنے آپ کو قابو میں رکھے اور جلد بازی سے کوئی ایسا کام نہ کرے‘ جس کا انجام اچھا نہ ہو‘ اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ غصے کی حسب ذیل تین حالتیں ہوتی ہیں:

1- غصہ اس قدر شدید ہو کہ آدمی کو کچھ معلوم نہ ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے‘ اس حالت میں اس کی باتوں کیلئے کوئی حکم نہیں ہے خواہ ان باتوں کا تعلق طلاق سے ہو یا‘ ایلاء وغیرہ سے کیونکہ اس حالت میں دو عقل و شعور کے فقدان میں مبتلا ہوتا ہے۔

2- غصہ معمولی ہو‘ انسان کا اپنے آپ پر قابو ہو‘ وہ حسب ارادہ تصرف کا مالک ہو تو اس حالت میں وہ طلاق وغیرہ کے جو الفاظ بھی استعمال کرے گا وہ نافذ ہونگے۔

-3 ان دونوں کے درمیان کی حالت‘ جس میں انسان کو یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے‘ لیکن غصے کی شدت کی وجہ سے اسے اپنے آپ پر قابو نہیں ہو تا‘ لہٰٓذا وہ طلاق‘ ظہار‘ یا ایلاء وغیرہ کے الفاظ زبان سے ادا کر دیتا ہے‘ اہل علم کی رائے ہے کہ اس حالت میں اس کی بات معتبر ہے‘ اس حالت میں اگر وہ اپنی بیوی کو طلاق دے تو طلاق نافذ ہو جائیگی‘ بعض اہل علم کے بقول اس حالت میں اس کی بات ناقابل اعتبار ہے‘ لہٰذا اس کی طلاق نافذاور واقع نہ ہو گی ‘ یہی قول اقراب الی الصواب ہے‘ کیونکہ نبی اکرم ؐ نے فرمایا ہے:

((لا طلاق فى اغلاق )) ( تلخيص الحيير )

’’جبر کی وجہ سے طلاق نہیں ہوتی۔‘‘

اس تفصیل سے معلوم ہوا ہے کہ اس سائل نے اگر حالت غضب میں ایسے الفاظ کہے ہیں ‘ جو طلاق کا تقاضا کرتے ہیں تو اگر اس حالت میں اسے اپنے آپ پر پابو نہیں تھا تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔

سائل نے اپنی بیوی سے جو یہ کہا کہ تو اپنے آپ کو آج یا کل سے مطلقہ سمجھ اور اس سے اس کا جو مقصود وہ دن تھا جس میں دو آئندہ عدالت میں طلاق کے کیس کو پیش کریگا تو جب وہ صورت رونما ہو جائے‘ جس کے ساتھ اس نے طلاق کو مشروط قرار دیا‘ تو طلاق واقع ہو جائیگی‘ کیونکہ مشروط ‘ شرط کے تابع ہو تا ہے اور جب شرط پائی جائے تو مشروط بھی موجود ہوتا ہے۔

اور اگر اس کی نیت شرط کی نہیں تھی‘ بلکہ نیت یہ تھی کہ مستقبل میں اس دن وہ طلاق دے دے گا تو اسے چاہیے کہ طلاق کو چھوڑ دے‘ طلاق نہ بھی دے تو کوئی حرج نہیں‘ اس سے اس کی بیوی کو طلاق نہ ہو گی کیونکہ طلاق کی نیت کرنے والے اور طلاق کو شرط کے ساتھ معلق قرار دینے والے میں فرق ہے‘ نیت کرنے والے کی بیوی کو طلاق اس وقت ہو گی جب وہ طلاق کے الفاظ زبان سے ادا کریگا یا کوئی ایسی صورت اختیار کرے‘ جو الفاظ کے حکم میں ہو اور اگر وہ اسے شرط کے ساتھ معلق قرار دے تو جب شرط پائی جائے طلاق واقع ہو جائیگی‘ الایہ کہ طلاق قسم کے حکم میں ہو اس صورت میں طلاق واقع نہیں ہوگی بلکہ قسم کا کفارہ لازم ہو گا اور وہ ہے‘ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا‘ انہیں کپڑے پہنانا، یا گردن آزاد کرنا اور اگر اس کی طاقت نہ ہو یا مساکین و غلام موجود نہ ہوں تو پھر مسلسل تین دن کے روزے رکھنا واجب ہے‘ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

﴿لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغوِ فى أَيمـٰنِكُم وَلـٰكِن يُؤاخِذُكُم بِما عَقَّدتُمُ الأَيمـٰنَ ۖ فَكَفّـٰرَ‌تُهُ إِطعامُ عَشَرَ‌ةِ مَسـٰكينَ مِن أَوسَطِ ما تُطعِمونَ أَهليكُم أَو كِسوَتُهُم أَو تَحر‌يرُ‌ رَ‌قَبَةٍ ۖ فَمَن لَم يَجِد فَصِيامُ ثَلـٰثَةِ أَيّامٍ ۚ ذ‌ٰلِكَ كَفّـٰرَ‌ةُ أَيمـٰنِكُم إِذا حَلَفتُم ۚ وَاحفَظوا أَيمـٰنَكُم ۚ كَذ‌ٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُم ءايـٰتِهِ لَعَلَّكُم تَشكُر‌ونَ ﴿٨٩﴾... سورة المائدة

’’اللہ تمہاری بے ارادہ قسموں پر تم سے مواخذہ ہیں کریگا ‘ لیکن پختہ قسموں پر جن کیخلاف کرو گے مواخذہ کریگا تو اس کا کفارہ دس محتاجوں کو اوساط درجنے کا کھانا کھلانا ہے ‘ جو تم اپنے اہل و عیال کو کھلاتے ہو یا ان کو کپڑے دینا ‘ یا ایک غلام آزاد کرنا اور جس کو یہ میسر نہ ہو وہ تین روزے رکھے ‘ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے ‘ جب تم قسم کھا لو اور اسے توڑ دو۔‘‘

حضرت ابن مسعود ؓ نے روزوں کے سلسلہ میں تسلسل کی بھی شرط لگائی ہے کیونکہ ان کی قرات میں ہے:

﴿فَصِيامُ ثَلـٰثَةِ أَيّامٍ متتابعة...٨٩﴾... سورة المائدة

’’مسلسل تین دن کے روزے رکھنا ہے۔‘‘

طلاق قسم کے حکم میں اس وقت ہوتی ہے جب شرط سے مقصود کسی کام کیلئے زور دینا یا معنع کرنا ‘ یا تصدیق ‘ یا تکذیب کرنا ہو۔ ہم مسلمان بھائیوں کو یہ بھی نصیت کریں گے کہ وہ طلاق سے قسم کا کام لینے سے اجتناب کریں کیونکہ نبی اکرم ؐ نے فرمایا ہے:

((من كان حالفا فليحلف بالله أو ليصمت )) ( صحيح البخاري )

’’جو شخص قسم کھانا چاہے وہ اللہ کے نام کی قسم کھائے یا خاموش رہے۔‘‘

اور پھر اس لئے بھی اس سے اجتناب کرنا چاہئے کہ وہ بہت سے یا اکثر اہل علم طلاق معلق کو کسی حالت میں بھی قسم کے حکم میں نہیں مانتے ‘ بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ جب بھی وہ شرط پائی جائیگی جس پر طلاق کو معلق کیا گیا ہو تو طلاق ہو جائیگی خواہ شرط سے مقصود قسم ہو یا محض شرط۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب الطلاق : جلد 3  صفحہ 314

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ