سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(326) تحریری طلاق

  • 9781
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1308

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص اپنی بہن اور بیوی کے پاس بیٹھا ہوا تھا‘ اس نے اپنی بہن سے کہا کہ ہو قلم لائے‘ چنانچہ اس نے کسی کی طرف منسوب کئے بغیر لکھ دیا: طلاق‘ طلاق۔ چنانچہ اس بہن نے قلم چھین لیا اور تین بار لکھا‘ طلاق ‘ طلاق‘ طلاق‘ پھر اس شخص نے یہ کاغذ بیوی کی طرف پھینک دیا اور کہا دیکھو جو میں نے لکھا ہے صحیح ہے ؟ حالانہ اس نے یہ الفاظ بیوی کو طلاق کے ارادہ سے نہیں لکھے تھے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر اس شخص کا ارادہ طلاق کا نہیں تھا تو اس سے اس کی بیوی پر طلاق واقع نہیں ہو گی کیونکہ اس کا ارادہ تو محض الفاظ لکھنے کا تھا یا طلاق دینے کے علاوہ اس کا کوئی اور ارادہ تھا اور نبی کریم ؐ نے فرمایا:

((إنما الأعمال بالنيات )) ( صحيح البخاري )

’’اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے۔‘‘

اہل علم کی ایک جماعت کا یہی قول ہے اور بعض کے بقول جمہور‘ کا یہ قول ہے کہ کتابت‘ کنایہ کے معنی میں ہے اور کنایہ سے نیت کے بغیر طلاق واقع نہیں ہوتی‘ علما کا صحیح ترین قول یہی ہے‘ ہاں البتہ کتابت کے ساتھ اگر کوئی ایسی چیز بھی شامل  ہو‘ جو طلاق کے ارادہ پر دلالت کرتی ہو تو طلاق واقع ہو جائیگی‘ لیکن مذکورہ واقعہ میں ایسی کوئی چیز موجود نہیں ہے جو طلاق واقع کرنے کے ارادہ پر دلالت کرتی ہو لہٰذا اصل یہی ہے کہ اس صورت میں نکاح باقی رہے گا اور نیت کے مطابق عمل ہو گا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہم سب کو دین میں فقاہت اور ثابت قدمی عطا فرمائے۔ (آمین)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب الطلاق : جلد 3  صفحہ 311

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ