سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(316) کیا حائضہ کو دی گئی طلاق واقع ہو جاتی ہے

  • 9771
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1715

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

دو بچوں کی ماں کو اس کے شوہر نے طلاق دی لیکن اس وقت وہ حالت طہارت میں نہ تھی اور نہ اس نے اپنے شوہر کو یہ بتایا تھا‘ حتیٰ کہ جب قاضی کے پاس گئے تو اس نے قاضی کو بھی اس بارے میں نہیں بتایا‘ صرف اپنی ماں کو بتایا اور ماں نے ہی اسے کہا کہ قاضی کو نہ بتانا ورنہ تجھے طلاق ہو گی‘ پھر عورت اپنے والدین کے گھر چلی گئی اور پھر شوہر کی طرف رجوع کا ارادہ کر لیا تا کہ بچے ضائع نہ ہوں ‘ سوال یہ ہے کہ حالت حیض میں دی گئی اس طلاق کے بارے میں کیا حکم ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حالت حیض میں دی گئی طلاق کے بارے میں اہل علم میں بہت اختلاف ہے یہ طلاق موثر ہو گی با لغو قرار پائے گی ؟ جمہور اہل عمل کی رائے یہ ہے کہ یہ طلاق موثر ہو گی اور ایک طلاق شمار ہو گی لیکن شوہر کو حکم دیا جائیگا کہ وہ بیوی کو اپنے پاس واپس لائے اور اسے اپنے پاس رکھے حتی کہ وہ حیض سے پاک ہو جائے اور اب اگر چاہے تو شوہر اسے اپنے پاس رکھے چاہے تو طلاق دے دے ‘ جمہور اہل علم کا یہی مذہب ہے ‘ جن میں ائمئہ اربعہ امام احمد ‘ شافعی ‘ مالک اور ابو حنیفہ ؒ بھی شامل ہیں لیکن ہمارے نزدیک ایک مسئلہ میں راجح وہ بات ہے جسے شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ نے پسند فرمایا ہے اور وہ یہ کہ حالت حیض میں دی گئی طلاق واقع ہوتی ہے نہ موثر ‘ کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ؐ کے حکم کے خلاف ہے اور نبی اکرم ؐ نے فرمایا:

((من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد)) ( صحيح مسلم )

’’جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس کے بارے میں ہمارا حکم نہیں ہے تو وہ عمل مردود ہے ۔‘‘

اور اس خاص مسئلہ سے متعلق دلیل حدیث عبداللہ بن عمر ؓ ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی تھی اور حضرت عمر ؓ نے جب اس کے متعلق رسول اللہ ؐ کو بتایا تو آپ نے شدید ناراضی کا اظہار کیا اور فرمایا:

((مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا ، ثُمَّ لِيَتْرُكْهَا حَتَّى تَطْهُرَ ، ثُمَّ تَحِيضَ ، ثُمَّ تَطْهُرَ ، ثُمَّ إِنْ شَاءَ أَمْسَكَ بَعْدُ ، وَإِنْ شَاءَ طَلَّقَ قَبْلَ أَنْ يَمَسَّ ، فَتِلْكَ الْعِدَّةُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ أَنْ تُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ)) (صحيح البخاري)

’’انہیں حکم دو کہ وہ رجوع کریں اور پھر اسے چھوڑ دیں حتی کہ وہ پاک ہو جائے ‘ پھر اسے حیض آئے اور پھر وہ پاک ہو جائے اور پھر اس کے بعد اگر چاہے تو اسے اپنے پاس رکھے اور چاہے تو اسے طلاق دے دے مجامعت کرنے سے پہلے۔ یہ ہے وہ عدت جس میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے۔‘‘

یعنی وہ عدت جس میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے‘ وہ حالت طہارت میں ہے جس میں شوہر نے بیوی کے ساتھ مقاربت نہ کی ہو ‘ لہٰذا جو شخص حالت حیض میں طلاق دے‘ اس نے گویا اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق طلاق نہیں دی اس لئے ایسی طلاق مردود ہو گی چنانچہ مذکورہ بالا عورت کو دی گئی طلاق موثر نہیں ہے اور عورت ابھی تک اپنے شوہر کی عصمت میں ہے اور اسے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ طلاق کے وقت مرد کو یہ علم تھا کہ عورت طاہرہ ہے یا نہیں‘ ہاں البتہ اگر اسے یہ علم ہو کہ عورت طاہرہ نہیں ہے تو وہ گنہگار ہو گا اور اگر علم نہ ہو تو وہ گنہگار نہیں ہو گا اور حالت حیض میں دی جانے کی وجہ سے طلاق بھی واقع نہیں ہوگی۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب الطلاق : جلد 3  صفحہ 300

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ