سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(315) طلاق کا کثرت استعمال

  • 9770
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1348

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

لوگوں میں معمولی بات پر طلاق کا جو کثرت سے استعمال ہو رہا ہے اس کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسلمان کے لئے مشروع یہ ہے کہ وہ اپنی اہلیہ یا دیگر لوگوں کے ساتھ نزاع کی صورت میں طلاق سے اجتناب کرے کیونکہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

((أبغض الحلال إلى الله عزو جل الطلاق )) ( سنن أبي داؤد)

’’ اللہ کے ہاں حلال چیزوں میں سے سب سے زیادہ نا پسندیدہ چیز طلاق ہے۔‘‘

اور پھر اس کے نتائج بھی چونکہ بہت سنگین ہوتے ہیں اس لئے بھی اس سے اجتناب ضروری ہے۔ طلاق صرف بوقت ضرورت جائز ہے اور اگر طلاق دینے میں مصالح ہوں یا عورت کو اپنے پاس رکھنے میں بہت زیادہ دینی نقصان ہو تو پھر طلاق مستجب ہے اور سنت یہ ہے کہ جب بوقت ضرورت طلاق دینا ہو تو ایک طلاق دی جائے تاکہ بوقت ارادہ عدت میں رجوع ممکن ہو اور عدت ختم ہونے کے بعد نکاح جدید  ممکن ہو، اسی طرح یہ بھی مشروع ہے کہ عورت کو حمل کی حالت میں طلاق دی جائے یا اس حالت طہارت میں جس میں اس سے مقاربت نہ کی ہو کیونکہ ابن عمرؓ نے جب اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دی تھی تو نبی اکرمﷺ نے انہیں حکم دیا تھا کہ وہ رجوع کر لیں، بیوی کو اپنے پاس رکھیں حتیٰ کہ وہ پاک ہو جائے، پھر اس کے ایام شروع ہوں اور وہ پاک ہو جائے تو اگر چاہیں تو مقاربت کئے بغیر اسے طلاق دے دیں اور فرمایا کہ یہ ہے وہ عدت جس میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے۔

صحیح مسلم کی ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں:

((أن النبى ﷺ ، قال لعمر: ((مره – يعني ابنه عبد الله – فليراجعها ثم ليطلقها طاهرا أو حاملا)) ( صحيح مسلم)

’’نبی کریمﷺ نے حضرت عمر ؓ سے فرمایا کہ انہیں یعنی اپنے بیٹے عبداللہ کو حکم دو کہ ’’وہ رجوع کر لیں اور پھر اسے حالت طہر یا حالت حمل میں طلاق دیں۔‘‘

حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حیض و نفاس یا ایسی حالت طہارت میں جس میں مباشرت کی ہو، عورت کو طلاق دینا جائز نہیں ہے اور یہ تفسیر ہے اس ارشاد باری تعالیٰ کی:

﴿يـٰأَيُّهَا النَّبِىُّ إِذا طَلَّقتُمُ النِّساءَ فَطَلِّقوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ...١﴾... سورة الطلاق

’’اے پیغمبرﷺ!(مسلمانو سے کہہ دو کہ ) جب تم عورتوں کو طلاق دینے لگو تو ان کی عدت کے شروع میں ان کو طلاق دو۔‘‘

اس طرح یہ بھی جائز نہیں کہ ایک ہی کلمہ کے ساتھ یا ایک ہی مجلس میں تینوں طلاقیں اکٹھی دے دی جائیں کیونکہ امام نسائیؒ نے بسند حسن محمود بن لبیدؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرمﷺ کو جب یہ خبر معلوم ہوئی کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے دی ہیں تو آپ ناراضی کے عالم میں کھڑے ہوئے اور فرمایا:

((أيلعب بكتاب الله وأنا بين أظهركم )) ( سنن النسائي)

’’کیا اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیلا(مذاق کیا) جارہا ہے حالانکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں۔‘‘

اور صحیحین میں ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے جب اپنی بیوی کو تینوں طلاقیں اکٹھی دے دیں تھیں تو آپﷺ نے ان سے فرمایا:

((فقد عصيت ربك فيما أمرك به من طلاق امرأتك )) ( صحيح مسلم )

’’تجھے بیوی کو طلاق دینے کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ کا جو حکم ہے تم نے اس کی نافرمانی کی ہے۔‘‘

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب الطلاق : جلد 3  صفحہ 295

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ