سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(314) طلاق شوہر کا حق ہے

  • 9769
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 2011

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اسلامی شریعت سے یہ بات ثابت ہے کہ طلاق شوہر کا حق ہے لیکن جمہور علماء کا جو یہ مذہب ہے کہ طلاق کا حق بیوی کو بھی سونپا جا سکتا ہے کہ وہ خود بھی اپنے آپ کو طلاق دے سکتی ہے یا یہ حق کسی وکیل کے سپرد بھی کیا جا سکتا ہے اور وہ اس طرح کہ شوہر کسی کو یہ حق تفویض کر دے کہ وہ اس کی طرف سے اس کی بیوی کو طلاق  دے، میرا سوال اس سلسلہ میں یہ ہے کہ کیا یہ حکم نبی اکرمﷺ سے ثابت ہے کہ آدمی طلاق کا حق اپنی بیوی یا کسی اور شخص کے سپرد کر سکتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عورت یا کسی اور شخص کو طلاق کے لئے وکیل بنانے کے بارے میں مجھے نبی اکرمﷺ کی کوئی حدیث معلوم نہیں ہے لیکن علماء نے یہ مسئلہ کتاب و سنت کے ان دلائل سے اخذ کیا ہے جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ مالی حقوق وغیرہ میں کسی سمجھدار آدمی کو وکیل بنانا جائز ہے۔

طلاق دینا شوہر کا حق ہے لیکن اگر وہ طلاق کا یہ حق اپنی بیوی یا کسی ایسے شخص کو سونپ دے جس کی طرف سے وکالت(سپردگی) کی نسبت صحیح ہو تو اس میں شرعی قاعدہ پر عمل کے پیش نظر کوئی حرج نہیں  لیکن شوہر کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ وکیل کو یہ حق دے کہ وہ اکٹھی تینوں طلاقیں دے دے کیونکہ اکٹھی تین طلاقیں دینا خود شوہر کے لئے بھی جائز نہیں ہے۔ لہٰذا وکیل کے لئے یہ بالا ولی جائز نہیں ہو گا، چنانچہ امام نسائیؒ نے جید سند کے ساتھ محمود بن لبیدؓ کی یہ روایت ذکر کی ہے کہ نبیﷺ کی خدمت میں جب یہ عرض کیا گیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تینوں طلاقیں اکٹھی دے دی ہیں تو آپ ناراض ہوئے اور فرمایا:

((أيلعب بكتاب الله  وأنا بين أظهركم )) ( سنن النسائي )

’’کیا اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیلا(مذاق کیا) جارہا ہے حالانکہ میں ابھی تمہارے درمیان موجود ہوں۔‘‘

اور صحیحین میں حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے جب طلاق کے متعلق ان سے پوچھا تو فرمایا:

((أما انت طلقتها ثلاثا فقد عصيت ربك فيما أمرك به من طلاق امرأتك )) ( صحيح مسلم )

’’آپ نے جو اسے تینوں طلاقیں اکٹھی دے دی ہیں تو بیوی کے طلاق دینے کے بارے میں تو نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی ہے۔‘‘

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب الطلاق : جلد 3  صفحہ 295

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ