سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(312) بچیوں کا نا پسند کرنا امر جاہلیت ہے

  • 9767
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 953

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اس زمانے میں ہم بعض لوگوں سے عجیب و غریب باتیں سنتے ہیں مثلاً کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم یہ پسند نہیں کرتے کہ ہماری بیویاں بچیوں کو جنم دیں اور بعض تو بیوی سے یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ اگر تو نے بچی پیدا کی تو میں تجھے طلاق دے دوں گا لہٰذا اس وجہ سے بعض عورتیں بہت پریشان ہیں اور وہ نہیں جانتیں کہ اپنے شوہروں کی ان باتوں کے جواب میں وہ کیا کریں، امید ہے آپ اس مسئلے میں رہنمائی فرمائیں گے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

میرے خیال میں اس بھائی نے جو بات کی ہے وہ بہت ہی شاذو نادر ہے کیونکہ میرے خیال میں کوئی شخص جہالت کی اس حدتک نہیں پہنچ سکتا کہ وہ اپنی بیوی سے یہ کہے کہ اگر تو نے بچی کو جنم دیا تو تجھے طلاق دے دوں گا، ہاں البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی بیوی سے تنگ ہو یا اکتا چکا ہو اور وہ اسے طلاق دینا چاہتا ہو اور اس بات کو اس نے طلاق کے لئے بہانہ بنا لیا ہو، اگر صورت حال واقعی ایسی ہے اور وہ اس کے ساتھ صبر نہیں کر سکتا تو وہ اس بہانے کو بروئے کار لائے بغیر ہی اسے طلاق دے دے کیونکہ بوقت ضرورت طلاق دینے میں کوئی حرج نہیں لیکن اس کے باوجود ہم ہر اس شخص کو یہ نصیحت کریں گے جو اپنی بیوی کی طرف سے کسی ناپسند بات کو دیکھے تو وہ صبر کرے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿فَإِن كَرِ‌هتُموهُنَّ فَعَسىٰ أَن تَكرَ‌هوا شَيـًٔا وَيَجعَلَ اللَّهُ فيهِ خَيرً‌ا كَثيرً‌ا ﴿١٩﴾... سورة النساء

’’اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو عجب نہیں کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور اللہ تعالیٰ اس میں بہت سی بھلائی پیدا کر دے۔‘‘

جہاں تک بچیوں کے ناپسند کرنے کی بات ہے تو بلا شبہ یہ امر جاہلیت میں سے ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر پر ناراضی کا اظہار ہے، انسان کو کیا معلوم شاید ایک بیٹی بہت سے بیٹوں سے بھی بہتر ثابت ہو، کتنی ہی بیٹیاں ہیں جو اپنے باپ کے لئے حیات و ممات میں بابرکت ثابت ہوئیں اور کتنے ہی بیٹے ہیں جو اپنے باپ کی زندگی میں اس کے لئے مصیبت و پریشانی کا باعث بنے اور بعد از موت بھی کچھ فائدہ نہ پہنچا سکے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب النکاح : جلد 3  صفحہ 288

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ