سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(93) ولاء اور براء کا مطلب ہے؟

  • 949
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 2136

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ولاء اور براء سے کیا مراد ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

براء اور ولاء اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی کے لیے ہونی چاہیے۔ براء کے معنی یہ ہیں کہ انسان ہر اس چیز سے برائت کا اظہار کر دے جس سے اللہ تعالیٰ نے اظہار براء ت فرمایا ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿قَد كانَت لَكُم أُسوَةٌ حَسَنَةٌ فى إِبرهيمَ وَالَّذينَ مَعَهُ إِذ قالوا لِقَومِهِم إِنّا بُرَءؤُا۟ مِنكُم وَمِمّا تَعبُدونَ مِن دونِ اللَّهِ كَفَرنا بِكُم وَبَدا بَينَنا وَبَينَكُمُ العَدوَةُ وَالبَغضاءُ أَبَدًا...﴿٤﴾... سورة الممتحنة

’’یقینا تمہارے لیے بہترین نمونہ ابراہیم علیہ السلام اور ان لوگوں میں ہے جو ان کے ساتھ تھے اس وقت جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا تھا، بے شک ہم تم سے اور ان سے بری ہیں جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو۔ ہم تم سے منکر ہوئے، ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے دشمنی اور بغض ظاہر ہوگیا ہے۔‘‘

یعنی یہاں پر مشرک قوم سے براء ت کا اظہار کیا گیا ہے جیسا کہ حسب ذیل ارشاد باری تعالیٰ میں واردہوا ہے:

﴿وَأَذنٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسولِهِ إِلَى النّاسِ يَومَ الحَجِّ الأَكبَرِ أَنَّ اللَّهَ بَرىءٌ مِنَ المُشرِكينَ وَرَسولُهُ...﴿٣﴾... سورة التوبة

’’اور حج اکبر کے دن اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے لوگوں کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ اللہ مشرکوں سے بیزار ہے اور اس کا رسول بھی (ان سے دستبردار ہے)۔‘‘

پس ہر مومن پر یہ واجب ہے کہ وہ ہر مشرک وکافر سے ذاتی طورپر براء ت کا اظہار کرے۔ اسی طرح ہر مسلم کے لیے یہ بھی واجب ہے کہ وہ ہر اس عمل سے بری الذمہ ہوجائے، اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم جسے پسند نہیں فرماتا، اگرچہ وہ کفر نہ ہو بلکہ فسق و عصیان کی قبیل سے ہو، جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا ہے:

﴿وَلـكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيكُمُ الإيمـنَ وَزَيَّنَهُ فى قُلوبِكُم وَكَرَّهَ إِلَيكُمُ الكُفرَ وَالفُسوقَ وَالعِصيانَ أُولـئِكَ هُمُ الرّشِدونَ ﴿٧﴾... سورة الحجرات

’’لیکن اللہ نے تمہارے لیے ایمان کو عزیز بنا دیا اور اس کو تمہارے دلوں میں سجا دیا اور کفر اور گناہ اور نافرمانی کو تمہارے لیے ناپسندیدہ بنا دیا، یہی لوگ راہ ہدایت والے ہیں۔‘‘

اگر کسی مومن کے دل میں ایمان بھی ہو اور وہ گناہوں کا ارتکاب بھی کرتا ہو تو اس کے ایمان کی وجہ سے ہم اسے پسند کریں گے اور اس کے گناہوں کی وجہ سے اسے ناپسند کریں گے۔ ہماری زندگی میں بھی اس طرح کے متعدد معاملات پیش آتے رہتے ہیں جن میں بیک وقت پسند اور ناپسند میں سے دونوں پہلوموجود ہو سکتے ہیں، مثلاً: ایسی دوا جس کا ذائقہ اچھا نہ ہو، بد ذائقہ ہونے کی وجہ سے آپ اسے ناپسند کرتے ہیں اور  اس کے باوجوداس میں شفا ہونے کی وجہ سے اسے آپ پسند کرتے ہیں۔

بعض لوگ گناہ گار مومن کو کافر کی بنسبت زیادہ پسند کرتے ہیں تو یہ بہت عجیب اور حقائق کو بدل دینے والی بات ہے۔ کافر تو اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اور مومنوں کا دشمن ہوتا ہے، لہٰذا ہمارے لیے واجب ہے کہ ہم اسے دل کی گہرائیوں سے ناپسند کریں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿يـأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَتَّخِذوا عَدُوّى وَعَدُوَّكُم أَولِياءَ تُلقونَ إِلَيهِم بِالمَوَدَّةِ وَقَد كَفَروا بِما جاءَكُم مِنَ الحَقِّ يُخرِجونَ الرَّسولَ وَإِيّاكُم أَن تُؤمِنوا بِاللَّهِ رَبِّكُم إِن كُنتُم خَرَجتُم جِهـدًا فى سَبيلى وَابتِغاءَ مَرضاتى تُسِرّونَ إِلَيهِم بِالمَوَدَّةِ وَأَنا۠ أَعلَمُ بِما أَخفَيتُم وَما أَعلَنتُم وَمَن يَفعَلهُ مِنكُم فَقَد ضَلَّ سَواءَ السَّبيلِ ﴿١﴾... سورة الممتحنة

’’اے مومنو! اگر تم میری راہ میں لڑنے اور میری خوشنودی طلب کرنے کے لیے (مکہ سے) نکلے ہو تو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔ تم تو ان کو دوستی کے پیغام بھیجتے ہو اور وہ (دین) حق سے جو تمہارے پاس آیا ہے، منکر ہیں اور اس وجہ سے کہ تم اپنے پروردگار اللہ پر ایمان لائے ہو، پیغمبر کو اور تم کو جلاوطن کرتے ہیں۔ تم ان کی طرف پوشیدہ دوستی کے پیغام بھیجتے ہو اور جو کچھ تم خفیہ اور علانیہ طور پر کرتے ہو، وہ مجھے معلوم ہے اور جو کوئی تم میں سے ایسا کرے گا وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔‘‘

اور فرمایا:

﴿يـأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَتَّخِذُوا اليَهودَ وَالنَّصـرى أَولِياءَ بَعضُهُم أَولِياءُ بَعضٍ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِنكُم فَإِنَّهُ مِنهُم إِنَّ اللَّهَ لا يَهدِى القَومَ الظّـلِمينَ ﴿٥١ فَتَرَى الَّذينَ فى قُلوبِهِم مَرَضٌ يُسـرِعونَ فيهِم يَقولونَ نَخشى أَن تُصيبَنا دائِرَةٌ فَعَسَى اللَّهُ أَن يَأتِىَ بِالفَتحِ أَو أَمرٍ مِن عِندِهِ فَيُصبِحوا عَلى ما أَسَرّوا فى أَنفُسِهِم نـدِمينَ ﴿٥٢﴾... سورة المائدة

’’اے ایمان والو! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ، یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو شخص تم میں سے ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہی میں سے ہوگا۔ بیشک اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ سو جن لوگوں کے دلوں میں (نفاق کا) مرض ہے تم ان کو دیکھو گے کہ ان میں دوڑ دوڑ کر ملے جاتے ہیں(اور یہودیوں میں گھستے چلے جارہے ہیں)اور کہتے ہیں کہ ہمیں خوف ہے کہ کہیں ہم پر زمانے کی گردش نہ آجائے۔ سو قریب ہے کہ اللہ فتح بھیجے یا اپنے ہاں سے کوئی اور امر (نازل فرمائے) پھر یہ اپنے دل کی باتوں پر، جو وہ چھپایا کرتے تھے، پشیمان ہو کر رہ جائیں گے۔‘‘

یہ کافر تو آپ سے کبھی خوش ہو ہی نہیں سکتے سوائے اس کے کہ آپ ان کی ملت کا اتباع کریں اور اپنے دین کو بیچ دیں۔ (جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے):

﴿وَلَن تَرضى عَنكَ اليَهودُ وَلَا النَّصـرى حَتّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُم...﴿١٢٠﴾... سورة البقرة

’’اور تم سے نہ تو یہودی کبھی خوش ہوں گے اور نہ عیسائی یہاں تک کہ آپ ان کے مذہب کی پیروی اختیار کر لیں۔‘‘

اور فرمایا:

﴿وَدَّ كَثيرٌ مِن أَهلِ الكِتـبِ لَو يَرُدّونَكُم مِن بَعدِ إيمـنِكُم كُفّارًا...﴿١٠٩ ... سورة البقرة

’’بہت سے اہل کتاب یہ چاہتے ہیں کہ تمہارے ایمان لا چکنے کے بعد وہ تمہیں پھر کافر بنا دیں۔‘‘

دراصل اس کا تعلق کفر کی تمام قسموں، مثلاً: جھگڑے، انکار، تکذیب، شرک اور الحاد میں سے ہر ایک پہلو یہ متعلق ہے۔ہاں جہاں تک اعمال کا تعلق ہے، تو ہم ہر حرام عمل سے براء ت کا اظہار کریں گے۔ حرام اعمال سے محبت کرنا اور انہیں اختیار کرنا ہمارے لیے جائز نہیں ہے۔ گناہ گار مومن کے گناہ سے ہم بیزاری کا پہلو اختیارکریں گے لیکن اس کے ایمان کی وجہ سے ہم اس سے دوستی اور محبت بھی کریں گے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

 

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ171

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ