سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(299) نکاح حلالہ

  • 9754
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1560

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آپ کے خیال میں نکاح حلالہ کے بارے میں شریعت کی کیا رائے ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ نکاح حلالہ کیا ہے، نکاح حلالہ یہ ہے کہ مرد کسی ایسی عورت سے نکاح کا قصد کرے جسے اس کے شوہر نے تین طلاقیں دی ہیں، یعنی پہلے ایک طلاق دی اور رجوع کر لیا، پھر دوسری طلاق دی اور رجوع کر لیا اور پھر تیسری طلاق دی، اب یہ عورت اس شوہر کے لئے حلال نہیں ہے جس نے اسے تین طلاقیں دے دیں ہیں الا یہ کہ یہ کسی دوسرے مرد سے برضا و رغبت شادی کرے اور وہ اس سے صحبت بھی کرے اور پھر وہ اسے طلاق دے دے یا فوت ہو جائے یا نکاح فسخ کر دے تو پھر پہلے شوہر کے لئے اس سے نکاح کرنا حلال ہو گا کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿الطَّلـٰقُ مَرَّ‌تانِ ۖ فَإِمساكٌ بِمَعر‌وفٍ أَو تَسر‌يحٌ بِإِحسـٰنٍ ۗ ...﴿٢٢٩﴾... ۗ فَإِن طَلَّقَها فَلا جُناحَ عَلَيهِما أَن يَتَر‌اجَعا إِن ظَنّا أَن يُقيما حُدودَ اللَّهِ ۗ وَتِلكَ حُدودُ اللَّهِ يُبَيِّنُها لِقَومٍ يَعلَمونَ ﴿٢٣٠﴾... سورة البقرة

’’طلاق( جس کے بعد رجوع ہو سکتا ہے صرف) دو بار ہے (یعنی جب دو دفعہ طلاق دی جائے  تو ) پھر عورتوں کو یا تو بطریق شائستہ نکاح میں رہنے دینا ہے یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا… پھر اگر شوہر(دو طلاقوں کے بعد تیسری) طلاق عورت کو دے دے تو اس کے بعد جب تک عورت کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کر لے اس پہلے شوہر کے لئے حلال نہ ہو گی ہاں اگر دوسرا خاوند بھی طلاق دے دے اور عورت اور پہلا خاوند پھر ایک دوسرے کی طرف رجوع کر لیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ دونوں یقین کر لیں کہ اللہ تعالیٰ کی حدوں کو قائم رکھ سکیں گے۔‘‘

تو اگر کوئی ایسی عورت کی طرف قصد کرے جسے اس کے شوہر نے تین طلاقیں دی ہوں اور وہ اس سے اس نیت سے شادی کرے کہ جب یہ عورت پہلے شوہر کے لئے حلال ہو جائے گی تو یہ اسے طلاق دے دے گا یعنی اس سے مباشرت کرنے کے بعد اسے طلاق دے دے گا اور پھر عدت گزرنے کے بعد یہ نئے نکاح کے ساتھ اپنے پہلے شوہر کے پاس چلی جائے گی تو یہ نکاح فاسد ہے نبیﷺ نے حلالہ کرنے والے اور کروانے والے پر لعنت فرمائی اور حلالہ کرنے والے کو کرائے کا سانڈ قرار دیا، کیونکہ یہ اس سانڈ بکرے کی طرح ہے جسے بکریوں کا مالک ایک معین مدت کے لئے کسی سے ادھار لیتا ہے اور پھر اسے اس کے مالک کو واپس کر دیتا ہے یہ مرد بھی سانڈ کی طرح ہے کہ اسے بھی کہا جاتا ہے کہ اس عورت سے شادی کر لو اور پھر اس سے مباشرت کر کے اسے طلاق دے دینا۔ یہ ہے نکاح حلالہ! اور اس کی حسب ذیل دو صورتیں ہوتی ہیں۔

1۔ بوقت عقد ہی یہ شرط لگائی جائے، مثلاً شوہر سے کہا جائے کہ ہم آپ کی شادی اس عورت سے اس شرط پر کرتے ہیں کہ اس سے مباشرت کر کے اسے طلاق دے دو۔

2۔ ایسی شرط تو عائد نہ کی جائے لیکن نیت یہی ہو ، نیت شوہر کی طرف سے بھی ہو سکتی ہے اور بیوی اور اس کے وارثوں کی طرف سے بھی، اگر نیت شوہر کی طرف سے ہے تو چونکہ اسے تو علیحدگی کا اختیار حاصل ہے لہٰذا اس طرح کے عقد کی صورت میں اس کے لئے یہ بیوی حلال نہ ہو گی  کیونکہ اس نے وہ نیت نہیں کی جو مقصود نکاح ہوتی ہے کیونکہ نکاح سے مقصود تو یہ ہوتا ہے کہ الفت و محبت سے بیوی کے ساتھ زندگی بسر کی جائے، عفت و پاکدامنی اختیار کی جائے اور اورلاد حاصل کی جائے تو چونکہ یہ نیت نکاح کے بنیادی مقصد ہی کے خلاف ہے لہٰذا یہ نکاح صحیح نہ ہو گا۔

عورت اور اس کے وارثوں کی نیت کے بارے میں علماء میں اختلاف ہے اور اب تک میرے نزدیک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ ان میں سے کون سا قول زیادہ صحیح ہے خلاصہ کلام یہ ہے کہ نکاح حلالہ حرام ہے، اس سے بیوی پہلے شوہر کے لئے  حلال نہیں ہوتی کیونکہ یہ نکاح ہی صحیح نہیں ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب النکاح : جلد 3  صفحہ 277

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ