سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(287) یہ شغار اور حرام ہے

  • 9742
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 1042

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک سائل نے یہ پوچھا ہے کہ میرے رشتہ داروں میں سے ایک شخص کی شادی ہوئی ہے جس کی صورت مشکوک ہے اور وہ یہ کہ اس شخص نے دوسرے کے  ساتھ یہ طے کیا ہے کہ یہ اپنی بیٹی کی اس کے ساتھ اس شرط پر شادی رے گا کہ وہ اپنی بہن کا اس کے بیٹے کو رشت دے اور ہر ایک نے یہ شرط لگائی ہے کہ وہ عورت کو طے شدہ لباس اور زیورات بھی دے گا تو کیا یہ نکاح صحیح ہے یا یہ شغار ہے جو کہ حرام ہے؟ اگر یہ شغار ہے تو وہ اب کیا کریں اور اگر یہ نکاح شغار نہیں ہے تو سوال یہ ہے کہ شغار کیا ہوتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ صورت جو آپ نے ذکر کی ہے بلا شک و شبہ شغار ہی ہے کیونکہ اس میں مہر کے بجائے صرف کپڑوں اور زیورات کا ذکر ہے  جبکہ ہمارے آج کل کے وقت میں کپڑوں اور زیورات کو مہر نہیں سمجھا جاتا بلکہ مہر کے لئے ضروری ہے کہ وہ نقدی کی نقدی کی صورت میں ہو اور پھر ان میں سے ہر ایک نے مہر مثل سے کم پر شادی کی ہے اور بلا شک یہ شغار ہے، اس صورت میں مہر میں دو چیزیں رکھی گئی ہیں۔ ایک مال اور دوسری شرمگاہیں، یعنی ان میں سے ہر ایک نے جو مال خرچ کیا ہے، وہ اور دوسری شرم گاہ مہر ہے اور یہ ناجائز اور حرام ہے اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے:

﴿وَأُحِلَّ لَكُم ما وَر‌اءَ ذ‌ٰلِكُم أَن تَبتَغوا بِأَمو‌ٰلِكُم مُحصِنينَ غَيرَ‌ مُسـٰفِحينَ...٢٤﴾... سورة النساء

’’اور ان (محرمات) کے سوا اور عورتیں تم کو حلال ہیں اور اس طرح کہ مال خرچ کر کے ان سے نکاح کر لو بشرطیکہ (نکاح) سے مقصود عفت قائم رکھنا ہو نہ کہ شہوت رانی۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے صرف مال کو مہر قرار دیا ہے  چنانچہ ارشاد ہے:

﴿أَن تَبتَغوا بِأَمو‌ٰلِكُم ...٢٤﴾... سورة النساء

’’مال خرچ کر کے ان سے نکاح کر لو۔‘‘

لیکن ان دونوں آدمیوں نے جو مہر مقرر کیا ہے وہ مال بھی ہے اور شرمگاہ بھی، لہٰذا یہ حرام ہے اور شغار میں داخل ہے اگر ان میں سے ہر ایک اپنی بیوی کو مہر مثل دیتا ہے، وہ بیوی کا کفو بھی ہوتا ہے، میاں بیوی دونوں اس شادی پر خوش بھی ہوتے تو اس صورت میں بعض اہل علم کے نزدیک یہ نکاح حلال ہوتا کیونکہ ان کے نزدیک شغار نہیں ہے جبکہ بعض دیگر اہل علم نے اسے بھی شغار ہی قرار دیا ہے، لہٰذا بے شک اس سے بچ جانا ہی زیادہ بہتر ہے کیونکہ اس دور میں لوگوں میں امانت بہت کم ہو گئی ہے، وہ اپن وارث عورتوں کی مصلحت کو اہمیت نہیں دیتے بلکہ اپنی ذاتی مصلحت کو اہمیت دیتے ہیں لہٰذا سد ذریعہ اور زالہ فساد کے لئے ضروری ہے کہ اس سے مطلقاً منع کردیا جائے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب النکاح : جلد 3  صفحہ 267

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ