سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(285) بچے کا نام رکھنا باپ کا حق ہے اور ……

  • 9714
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1803

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مجھے بیٹی عطا فرمائی تو میں اس کا کچھ اور میری بیوی نے کچھ اور نام رکھنا چاہا تو ہم نے ان دونوں ناموں کا قرعہ نکالا اور قرعہ کے نتیجے کے مطابق نام رکھ لیا تو کیا یہ طرز عمل تیروں سے قسمت آزمائی ہے اور اگر یہ اسی طرح ہے تو پھر اس طرح کے اختلافات کے حل کی کیا صورت ہو گی ؟ کیا بچے کا نام رکھنا صرف والد کا حق ہے؟ رہنمائی  فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس طرح کے امور میں قرعہ اندازی امر سے شروع ہے کیونکہ اس طرح جھگڑا حل ہو جاتا اور دلوں کواطمینان ہو جاتا ہے، نبی اکرمﷺ نے بھی بہت سے امور میں قرعہ استعمال فرمایا  تھا، چنانچہ آپﷺ جب سفر کا ارادہ فرماتے تو ازدواج مطہرات میں قرعہ ڈالتے، جس کے نام قرعہ نکل آتا تو اسے سفر میں اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔ اور جب ایک آدمی نے اپنے چھ غلاموں کو آزاد کرنے کی وصیت کی تو نبی اکرمﷺ نے ان میں قرعہ ڈالا اور قرعہ کے ذریعے ان میں سے دو کو آزاد کردیا اور چار کو غلام رہنے دیا۔ بچے کا نام رکھنا باپ کا حق ہے لیکن مستجب ہے کہ اس سلسلے میں طیب نفس اور تالیف قلب کے لئے بچے کی ماں سے بھی مشورہ کر لیا جائے ا ورر دونوں کے لئے مشروع یہ ہے کہ اچھے ناموں کا انتخاب کریں اور برے ناموں کو ترک کر دیں ایسے نام رکھنے جائز نہیں جن میں غیر اللہ کی بندگی کا اظہار ہو مثلاً عبدالنبی، عبدالکعبہ، اور عبدالحسن وغیرہ کیونکہ سب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے بندے ہیں لہٰذا غیر اللہ کی طرف بندگی کی نسبت جائز نہیں ہے۔

 مشہور عالم ابو محمد بن حزم نے اس مسئلہ پر علماء کا اتفاق نقل کیا ہے کہ غیر اللہ کی طرف بندگی کی نسبت کرنا حرام ہے، سوائے عبدالمطلب، کے کیونکہﷺ نے بعض صحابہؓ کے اس نام کو برقرار رکھا تھا۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب النکاح : جلد 3  صفحہ 250

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ