سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(244) مہر میں مبالغہ اور شادی کی تقریبات میں فضول خرچی

  • 9699
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1931

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مہر میں مبالغہ اور شادی کی تقریبات میں فضول خرچی


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کبار علماء کی کونسل نے اپنے دسویں اجلاس میں (جو ریاض میں ۲۱/۳/۱۳۹۷ھ سے ۴/۴/۱۳۹۷ھ تک جاری رہا) اس تحقیقی بحث کا جائزہ لیا جو کبار علماء کی مستقل کمیٹی نے عورتوں کے حق مہر کی تحدید کے موضوع پر تیار کی تھی۔ کبار علماء کی کونسل میں غور کیلئے یہ ریفرنس مجلس وزراء کے نائب صدر نے بھیجا تھا کیونکہ بہت سے لوگوں کی طرف سے حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کرائی گئی تھی کہ لوگ مہر میں بے حد مبالغہ آرائی سے کام لینے لگے ہیں‘ شادی اور ولیمہ کی تقریبات میں بے پناہ خرچ کر کے تمام حدود سے تجاوز کر رہے ہیں۔ آرائش اور زیبائش اور بجلی کے قمقموں سے بے پناہ روشنیوں کا اہتمام بھی حد اعتدال سے بڑھتا جا رہا ہے۔ لہووللعب‘ گانے بجانے اور موسیقی کے (یہ ناجائز) پروگرام بسا اوقات ساری ساری رات جاری رہتے ہیں حتیٰ کہ بسا اوقات ان کی آوازیں نماز فجر کے مؤذنین کی آوازوں سے بھی بلند ہوتی ہیں۔ شادی سے پہلے منگنی وغیرہ کی رسوم کی تقریبات اس پر مستزاد ہیں۔ حکومت کی توجہ ان بعض دلائل کی طرف بھی مبذول کروائی گئی جن میں مہر میں کمی‘ اخراجات میں اعتدال اور اسراف و فضول خرچی سے اجتناب کی تلقین کی گئی ہے مثلاً ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿ وَلا تُبَذِّر‌ تَبذيرً‌ا ﴿٢٦ إِنَّ المُبَذِّر‌ينَ كانوا إِخو‌ٰنَ الشَّيـٰطينِ ۖ وَكانَ الشَّيطـٰنُ لِرَ‌بِّهِ كَفورً‌ا ﴿٢٧﴾... سورة الاسراء

’’اور فضول خرچی سے مال نہ اڑائو بلاشبہ فضول خرچی کرنے والے تو شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار (کی نعمتوں) کا کفران کرنے والا (ناشکرا ) ہے۔‘‘

مسلم‘ ابو دائود اور نسائی میں ابو سلمہ بن عبدالرحمنؓ سے روایت ہے کہ میں نے ام المومنین حضڑت عائشہ صدیقہؓ سے پوچھا کہ رسول اللہﷺ کا مہر کتنا تھا؟ تو انہوں نے جواب دیا:

((كان صداقة لأزوجه ثنتي أوقية ونشا قالت :أتدري ما النش؟ قلت: لا ، قالت: نصف أوقية فتلك خمسائة درهم )) ( صحيح مسلم )

’’آپ کی ازواج مطہرات کا مہر بارہ اوقیے اور نش ‘‘ تھا پھر انہوں نے فرمایا کیا تمہیں معلوم ہے کہ نش کیا ہوتا ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں مجھے معلوم نہیں تو انہوں نے فرمایا کہ نش کے معنی نصف اوقیہ کے ہیں اور اس طرح یہ سارا مہر پانچ سو درہم ہوا۔‘‘

اسی طرح حضرت عمرؓ سے روایت ہے:

’’مجھے نہیں معلوم کہ رسول اللہﷺ نے کسی خاتون سے شادی پر یا اپنی کسی صاحبزادی کے نکاح پر بارہ اوقیہ سے زیادہ مہر مقرر کیا ہو۔‘‘

امام ترمذیؒ نے اس حدیث کو حسن صحیح قرار دیا ہے۔ نیز صحیحین اور دیگر کتب حدیث میں حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ایک آدمی کی ایک عورت سے شادی کے موقع پر یہ مہر مقرر کیا کہ اسے جس قدر قرآن مجید یاد ہے‘ وہ اسے بھی سکھا دے۔

امام ترمذیؒ نے روایت کیا اور اس روایت کو صحیح بھی قرار دیا ہے کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا:

((أَلا لا تُغْلُوا صُدُقَ النِّسَاءِ ، فَإِنَّهَا لَوْ كَانَتْ مَكْرُمَةً فِي الدُّنْيَا وَتَقْوَى عِنْدَ اللَّهِ ، كَانَ أَوْلاكُمْ بِهَا مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، مَا زَوَّجَ أَحَدًا مِنْ بَنَاتِهِ وَلا تَزَوَّجَ أَحَدًا مِنْ نِسَائِهِ بِأَكْثَرَ مِنْ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ أُوقِيَّةً ، إِنَّ أَحَدَكُمْ لَيُغْلِي صَدَقَةَ الْمَرْأَةِ حَتَّى يَكُونَ فِدَاؤُهُ لَهَا ، فَيَقُولُ : قَدْ كَلِفْتُ لَكِ عَلَقَ الْقِرْبَةِ ، أَوْ قَالَ : عَرَقَ الْقِرْبَةِ)) (جامع الترمذي)

’’تم عورتوں کے مہر میں غلو (حد سے بڑھنے والے اور بے اعتدالی)سے کام نہ لو کیونکہ یہ بات اگر دنیا کے اعتبار سے باعث عزت یا اللہ تعالیٰ کے ہاں تقویٰ کا سبب ہوتی تو نبی اکرمﷺ اس کے تم سے بھی زیادہ مستحق تھے لیکن نبی اکرمﷺ نے ازواج مطہرات یا اپنی صاحبزادیوں میں سے کسی کا بھی مہر بارہ اوقیہ سے زیادہ مقرر نہیں فرمایا تھا۔ بسا اوقات آدمی کی اپنی بیوی کے مہر کی وجہ سے آزمائش بھی ہوتی ہے‘ جس سے اس کے دل میں دشمنی پیدا ہو جاتی ہے۔ حتیٰ کہ وہ کہنے لگتا ہے کہ میں نے تیرے لئے (یعنی تجھے حاصل کرنے کیلئے) اتنی رحمت اور تکلیف اٹھائی جتنی مشک اٹھانے میں ہوتی ہے۔‘‘

وہ احادیث و آثار بہت زیادہ بھی ہیں اور مشہور و معروف بھی جن میں اخراجات میں اعتدال سے کام لینے کی ترغیب دی گئی ہے اور حد ضرورت سے تجاوز کی ممانعت کی گئی ہے تو ان احادیث و آثار کی بنیاد پر اور مہر میں مبالغہ آرائی اور شادی و ولیمہ وغیرہ کی دعوتوں میں حد اعتدال سے تجاوز کے باعث اور پھر شادی سے پہلے اور بعد میں بھی ان دعوتوں کی کثرت کے باعث جو خرابیاں رونما ہوتی ہیں اور ایسے حرام امور کا ارتکاب ہوتا ہے جو اخلاق خراب کرتے ہیں مثلاً گانا بجانا‘ مردوں اور عورتوں کا اختلاط‘ دعوتوں کے ہوٹلوں میں انعقاد کی صورت میں عورتوں کیلئے بھی ہوٹلوں کے مرد ملازمین کا خدمت سر انجام دینا جو بجائے خود ایک بہت بڑی برائی ہے اور جب بہت سے لوگ شادی کی اس طرح کی دعوتوں کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے تو پھر وہ کسی ایسے معاشرے میں شادی کر لیتے ہیں جس کے اخلاق و روایات ہمارے معاشرہ سے ہم آہنگ نہیں ہوتے اور جن کی وجہ سے ہمارے ہاں بھی عقیدہ و اخلاق میں انحراف آ جاتا ہے بلکہ یہ بے حد و حساب فضول خرچی بھی ہمارے بہت سے بچوں اور بچیوں کے اخلاقی انحراف کا سبب بنتی ہے۔ ان تمام امور کے پیش نظر مجلس کبار علماء شدت سے یہ محسوس کرتی ہے کہ اس صورتحال کابہت مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر علاج ہونا چاہئے‘ اس سلسلہ میں کونسل کی سفارشات حسب ذیل ہیں:

(۱) کونسل کی رائے میں شادی کی محفلوں میں گانے بجانے‘ موسیقی‘ گلوکار مردوں‘ عورتوں اور لائوڈ سپیکر کے استعمال پر پابندی لگا دی جائے کیونکہ یہ سب امور منکر اور حرام ہیں‘ ان سے منع کرنا اور باز نہ آنے والے کو سزا دینا واجب ہے۔

(۲) شادی اور دیگر محفلوں میں مردوں اور عورتوں کے اختلاط پر پابندی لگائی جائے اور شوہر کوبھی منع کیا جائے کہ وہ اپنی بیوی کے پاس اس وقت نہ جائے جب اس کے پاس عورتیں پردہ کے بغیر بیٹھی ہوں اور اس سے باز نہ آنے والے شوہر کو اور بیوی کے وارثوں کو ایسی سزا دی جائے کہ وہ اس منکر سے باز آ جائیں۔

(۳) شادی اور ولیمہ کی دعوتوں میں اسراف‘ فضول خرچی اور اعتدال سے بڑھ کر خرچ کرنے سے منع کیا جائے۔ نکاح رجسٹرار اور ذرائع ابلاغ کے ذریعہ لوگوں کو سمجھایا جائے‘ مہر میں تخفیف (کمی کرنے) کی ترغیب دی جائے اور اسراف کی مذمت کی جائے۔ نیز اس موضوع پر مسجدوں کے منبروں پر‘ علمی مجلسوں میں اور ذرائع ابلاغ کے ذریعہ نشر ہونے والے پروگراموں میں روشنی ڈالی جائے۔

(۴) کونسل میں کثرت رائے سے یہ بھی طے پایا کہ جو لوگ شادی اور ولیمہ کی دعوتوں میں بہت واضح طور پر اسراف اور فضول خرچی کا مظاہرہ کریں‘ انہیں سزا دی جائے اور محاسب پولیس کی وساطت سے ان کے معاملہ کو عدالتوں میں لے جایا جائے تاکہ جس کے بارے میں یہ ثابت ہو جائے کہ اس نے حد اعتدال سے تجاوز کیا ہے‘ اسے حاکم شرعی کوئی ایسی تعزیری سزا دے سکے جو دوسروں کیلئے بھی باعث عبرت ہو کیونکہ کچھ لوگ سزا کے بغیر باز آ ہی نہیں سکتے۔ حاکم وقت کو بھی چاہئے۔ (اللہ تعالیٰ اسے توفیق عطا فرمائے) کہ وہ امت کی ان مشکلات کا علاج کرے‘ انحراف کے اسباب کو ختم کرے اور مخالفت کرنے والے کی سزا پر دستخط کر دے تاکہ لوگ ان فضول خرچیوں اور اسراف سے باز آ جائیں۔

(۵) کونسل کی رائے میں مسجدوں کے منبروں اور ذرائع ابلاغ کے ذریعہ مہر کی تخفیف و تقلیل کی تلقین و ترغیب دی جائے اورایسی مثالیں بیان کی جائیں جو شادی کے کم اخراجات کے سلسلہ میں مشعل راہ ہوں مثلاً اگر کسی نے مہر کے کچھ حصہ کو واپس کر دیا ہو یا استطاعت کے باوجود دعوت کو اسراف و فضول خرچی سے پاک رکھا ہو تو ایسی مثالوں کو ضرور بیان کیا جائے کیونکہ لوگ ان سے متاثر ہوتے ہیں۔

(۶) کونسل کی رائے میں اسراف و فضول خرچی سے بچنے کیلئے سب سے زیادہ کامیاب طریقہ یہ ہے کہ قائدین‘ امرائ‘ علمائ‘ معززین اور دیگر صاحب حیثیت لوگ اسراف اور فضول خرچی سے بچنے کا آغاز کریں کیونکہ جب تک یہ لوگ باز نہیں آئیں گے عامۃ الناس بھی کبھی اس سے باز نہیں آئیں گے کیونکہ عوام تو اپنے قائدین و معززین کے تابع ہوتے ہیں لہٰذا حکمرانوں پر بھی یہ فرض ہے کہ وہ سب سے پہلے خود اس کا آغاز کریں اور دوسروں سے پہلے اپنے حلقہ کے خواص سے اس کی پابندی کرائیں۔ رسول اللہﷺ اور حضرات صحابہ کرامؓ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سختی سے اس کی پابندی کریں تاکہ معاشرہ میں کنوارے لڑکے اور لڑکیوں کی کثرت نہ ہو کیونکہ اس سے بھی جنسی انارکی اور اخلاقی بے راہ روی جنم لیتی ہے۔

یاد رہے حکمرانوں سے کل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس امت کے بارے میں پوچھا جائے لہٰذا ان کیلئے یہ واجب ہے کہ یہ امت کو برائی سے روکیں‘ برائی کے اسباب کا خاتمہ کریں او ران امور کا سراغ لگائیں جو نوجوانوں کی شادی میں تاخیر کا سبب بنتے ہیں تاکہ وہ اس کا مناسب علاج بھی کر سکیں… حکومت… الللہ تعالیٰ اس کی مدد فرمائے اور اسے توفیق بخشے… اللہ تعالیٰ نے اسے جو بے پناہ وسائل اور امت کی اصلاح کیلئے جذبہ فراواں عطا فرمایا ہے‘ اس کی وجہ سے اس بات پر قادر ہے کہ ہر اس چیز کا خاتمہ کر دے جو اس معاشرہ کیلئے نقصان دہ ہے یا جو اخلاقی بے راہ روی کا سبب بنتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی دین کی نصرت‘ اپنے کلمہ کی سربلندی اور بندگان الٰہی کی اصلاح کی توفیق بخشے اور اسے دنیا و آخرت میں بے پایاں اجرو ثواب سے نوازے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب النکاح : جلد 3  صفحہ 206

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ