سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(227) اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) عورتوں سے نکاح کا حکم

  • 9682
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-23
  • مشاہدات : 4886

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اہل کتاب عورتوں سے نکاح کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس کا حکم یہ ہے کہ یہ جمہور اہل علم کے نزدیک یہ حلال اور مباح ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَالمُحصَنـٰتُ مِنَ المُؤمِنـٰتِ وَالمُحصَنـٰتُ مِنَ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ مِن قَبلِكُم إِذا ءاتَيتُموهُنَّ أُجورَ‌هُنَّ مُحصِنينَ غَيرَ‌ مُسـٰفِحينَ وَلا مُتَّخِذى أَخدانٍ ۗ وَمَن يَكفُر‌ بِالإيمـٰنِ فَقَد حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِى الءاخِرَ‌ةِ مِنَ الخـٰسِر‌ينَ ﴿٥﴾... سورة المائدة

’’ اور پاک دامن مومن عورتیں او پاک دامن اہل کتاب عورتیں بھی تمہارے لئے حلال ہیں جبکہ ان کا مہر دے دو اور ان سے عفت قائم رکھنی مقصود ہو نہ کھلی بدکاری کرنی اور نہ چھپی دوستی کرنی اور جو شخص ایمان کا منکر ہوا اس کے عمل ضائع ہو گئے اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہو گا۔‘‘

علماء تفسیر کے صحیح ترین قول کے مطابق محضہ آزاد اور پاک دامن عورت کو کہتے ہیں چنانچہ حافظ ابن کثیرؓ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں  کہ( والمحصنات مین المومنات) کے معنی یہ ہیں کہ تمہارے لئے آزاد اور پاک دامن مومن عورتوں سے نکاح کرنا حلال قرار دے دیا گیا ہے اور یہ جملہ حسب ذیل ارشاد باری تعالیٰ کی تمہید ہے۔

﴿ وَالمُحصَنـٰتُ مِنَ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ مِن قَبلِكُم... ﴿٥﴾... سورة المائدة

’’  اور پاک دامن اہل کتاب عورتیں بھی(حلال ) ہیں۔‘‘

ایک قول یہ ہے کہ ’’محصنات‘‘ سے مراد آزاد عورتیں ہیں باندیاں نہیں۔ چنانچہ ابن حریرؓ نے مجاہدؒ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ محصنات سے مراد آزاد عورتیں ہیں چنانچہ اس بات کا بھی احتمال ہے کہ اس سے آزاد عورتیں مراد ہوں یا اس سے آزاد اور پاک دامن عورتیں مراد ہوں جیسا کہ ان سے مروری دوسری روایت میں ہے اور یہی جمہور کا بھی قول ہے اور یہی قول زیادہ صحیح بھی ہے اور یہ اس لئے کہ اس میں ذمی عورتیں شامل نہ ہو جائیں کیونکہ وہ عفیف بھی نہیں ہوتیں او ان کی حالت بھی خراب ہو تی ہے ، ذمی عورت سے شادی کرنے والے کی حالت تو اس طرح ہو گی جیسا کہ ایک ضرب المثل ہے کہ’’سووا ردی بھی اور تول میں بھی کم‘‘ لہٰذا اس آیت کریمہ سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ’’محصنات‘‘  مراد وہ عورتیں ہیں جو بدکاری سے پاک دامن ہوں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے دوسری آیت میں فرمایا:

﴿مُحصَنـٰتٍ غَيرَ‌ مُسـٰفِحـٰتٍ وَلا مُتَّخِذ‌ٰتِ أَخدانٍ...٢٥﴾... سورة النساء

’’ بشرطیکہ عفیفہ(پاک دامن)ہوں نہ ایسی کہ کھلم کھلا بدکاری کریں اور نہ در پردہ دوستی کرنا چاہیں۔‘‘

پاک دامن اہل کتاب عورتوں کے بارے میں مفسرین اور علماء کا اختلاف ہے کہ یہ حکم ہر پاک دامن کتابی عورت کے لئے ہے، خواہ وہ آزاد ہو یا غلام جیسا کہ ابن حریر نے سلف کی ایک جماعت سے بیان کیا ہے کہ محصنہ سے مراد عفیفہ ہے، ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد اسرائیلی عورتیں ہیں ۔ چنانچہ امام شافعیؒ کا بھی یہی مذہب ہے او ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد ذی عورتیں ہیں حربی نہیں کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

﴿قـٰتِلُوا الَّذينَ لا يُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَلا بِاليَومِ الءاخِرِ‌...٢٩﴾... سورة التوبة

’’  جو لوگ اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور نہ روز آخرت پر یقین رکھتے ہیں ، ان سے جنگ کرو۔‘‘

ابن عمرؓ نصرانی عورت سے نکاح کو جائز نہیں سمجھتے تھے اور فرماتے تھے کہ اس سے بڑا اور شرک کیا ہو سکتا ہے کہ وہ کہے کہ میرا رب عیسیٰ ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿وَلا تَنكِحُوا المُشرِ‌كـٰتِ حَتّىٰ يُؤمِنَّ...٢٢١﴾... سورة البقرة

’’  اور تم(اے مومنو!) مشرک عورتوں سے اس وقت تک نکاح نہ کرو جب تک وہ ایمان نہ لائیں۔‘‘

ابن ابی حاتمؒ نے اپنے والد گرامی، محمد بن حاتم بن سلیمان مودب ، قاسم بن مالک مزنی، اسماعیل بن سمیعؒ کی سند کے ساتھ ابو مالک غفاریؓ سے روایت کیا ہے کہ جب یہ آیت

﴿وَلا تَنكِحُوا المُشرِ‌كـٰتِ حَتّىٰ يُؤمِنَّ...٢٢١﴾... سورة البقرة

’’  اور تم(اے مومنو!) مشرک عورتوں سے جب تک وہ ایمان نہ لائیں نکاح مت کرو۔‘‘

نازل ہوئی تو لوگ ان سے نکاح کرنے سے رک گئے حتیٰ کہ اس کے بعد یہ آیت

﴿ وَالمُحصَنـٰتُ مِنَ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ مِن قَبلِكُم... ﴿٥﴾... سورة المائدة

’’ اور پاکدامن اہل کتاب عورتیں بھی حلال ہیں۔‘‘

نازل ہوئی تو لوگوں نے اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کرنا شروع کردیا ، چنانچہ صحابہ کرامؒ کی ایک جماعت نے نصرانی عورتوں سے نکاح کیا اور اس مذکورہ آیت کے پیش نظر انہوں نے اس میں کوئی حرج محسوس نہیں کیا اور انہوں نے اسے سورۃ بقرہ کی اس آیت کے لئے مخصص قرار دیا جس میں مشرک عورتوں سے نکاح کرنے کی ممانعت ہے بشرطیکہ یہ کہا جائے کہ کتابی عورتیں بھی اس آیت کے عموم میں داخل ہیں ورنہ دونوں آیتوں میں کوئی تعارض نہیں ہو گا کہ قرانٓ حکیم میں کئی ایک مقامات پر اہل کتاب کا مشرکین سے الگ ذکر کیا گیا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿لَم يَكُنِ الَّذينَ كَفَر‌وا مِن أَهلِ الكِتـٰبِ وَالمُشرِ‌كينَ مُنفَكّينَ حَتّىٰ تَأتِيَهُمُ البَيِّنَةُ ﴿١﴾... سورة البينة

’’ جو لوگ کافر ہیں یعنی اہل کتاب اور مشرک وہ (کفر سے) باز رہنے والے نہ تھے جب تک ان کے پاس کھلی دلیل نہ آتی۔‘‘

نیز فرمایا۔

﴿وَقُل لِلَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ وَالأُمِّيّـۧنَ ءَأَسلَمتُم ۚ فَإِن أَسلَموا فَقَدِ اهتَدَوا...٢٠﴾... سورة آل عمران

’’ اور اہل کتاب اور ان پڑھ لوگوں سے کہو کہ کیا تم(بھی اللہ کے فرماں برادر بنتے اور)اسلام لاتے ہوئے پس اگر یہ لوگ اسلام لے آئیں تو بے شک ہدایت پائیں گے۔‘‘

ابو محمد موافق الدین عبداللہ بن احمد بن قدامہ جنبیؒ اپنی کتاب’’المغنی‘‘ میں فرماتے ہیں کہ بحمداللہ اہل علم کے درمیان اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں کہ آزاد اہل کتاب عورتیں حلال ہیں، چنانچہ حضرت عمر عثمان، طلحہ، حذیفہ، سلمان، جابر اور دیگر صحابہ کرامؓ سے یہی مروی ہے۔ ابن منذرؒ فرماتے ہیں کہ اوائل میں سے کسی سے بھی صحیح طور پر یہ ثابت نہیں کہ انہوں نے اسے حرام قرار دیا ہو۔ خلال نے اپنی سند کے ساتھ حذیفہ، طلحہ، جارود بن معلیٰ اور اذینہ عبدیؓ کے بارے میں یہ ذکر کیا ہے کہ انہوں نے اہل کتاب عورتوں سے شادی کی تھی چنانچہ دیگر تمام اہل علم کا بھی یہی قول ہے۔ ہاں البتہ امامیہ نے اسے درج ذیل آیات کے پیش نظر حرام قرار دیا ہے:۔

﴿وَلا تَنكِحُوا المُشرِ‌كـٰتِ حَتّىٰ يُؤمِنَّ...٢٢١﴾... سورة البقرة

’’ اور تم (اے مومنو!) شرک کرنے والی عورتوں کے ساتھ اس وقت تک نکاح نہ کرو، جب تک وہ ایمان نہ لائیں۔‘‘

﴿وَلا تُمسِكوا بِعِصَمِ الكَوافِرِ‌...١٠﴾... سورة الممتحنة

’’اور کافر عورتوں کی ناموس کو قبضے میں نہ رکھو(یعنی کفار کو واپس دے دو)۔‘‘

﴿اليَومَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبـٰتُ ۖ وَطَعامُ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ حِلٌّ لَكُم وَطَعامُكُم حِلٌّ لَهُم ۖ وَالمُحصَنـٰتُ مِنَ المُؤمِنـٰتِ وَالمُحصَنـٰتُ مِنَ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ مِن قَبلِكُم إِذا ءاتَيتُموهُنَّ أُجورَ‌هُنَّ...٥﴾... سورة المائدة

’’ آج تمہارے لئے سب پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئی ہیں اور اہل کتاب کا کھانا بھی تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کے لئے حلال ہے اور پاک دامن اہل کتاب عورتیں بھی حلال ہیں جب تم ان کا مہر دے دو۔‘‘

نیز امامیہ کا استدلال اجماع صحابہؓ سے بھی ہے۔

(اب ان کے دلائل کا جواب سنیے) چنانچہ آیت کریمہ(ولا تنکحو المشرکت) کے بارے میں ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ یہ آیت سورۃ مائدہ کی آیت ان سے بعد کی ہے۔ دیگر علماء نے یہ کہا ہے کہ یہ آیات منسوخ، تو نہیں ہیں لیکن بات یہ ہے کہ مشرکین کا لفظ جب مطلقاً استعمال ہو تو اہل کتاب اس میں شامل نہیں ہوتے جیسا کہ درج ذیل آیات میں مشرکین کے ساتھ اہل کتاب کو الگ سے مستقل طور پر ذکر کیا گیا ہے۔

﴿لَم يَكُنِ الَّذينَ كَفَر‌وا مِن أَهلِ الكِتـٰبِ وَالمُشرِ‌كينَ مُنفَكّينَ حَتّىٰ تَأتِيَهُمُ البَيِّنَةُ ﴿١﴾... سورة البينة

’’ جو لوگ کافر ہیں یعنی اہل کتاب اور مشرکت وہ(کفر) سے باز رہنے والے نہ تھے جب تک کہ ان کے پاس کھلی دلیل(نہ ) آتی ۔‘‘

اور فرمایا:

﴿إِنَّ الَّذينَ كَفَر‌وا مِن أَهلِ الكِتـٰبِ وَالمُشرِ‌كينَ ...٦﴾... سورة البينة

’’ بے شک وہ لوگ جو اہل کتاب ہیں اور مشرک ہیں۔‘‘

اور فرمایا:

﴿ما يَوَدُّ الَّذينَ كَفَر‌وا مِن أَهلِ الكِتـٰبِ وَلَا المُشرِ‌كينَ...١٠٥﴾... سورة البقرة

’’ جو لوگ کافر ہیں اہل کتاب یا مشرک وہ اس بات کو پسند نہیں کرتے۔‘‘

اسی طرح دیگر سارے قرآن مجید میں بھی مشرکین اور اہل کتاب کا ذکر الگ الگ کیا گیا ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ مشرکین کا لفظ اہل کتاب کو شامل نہیں ہوتا چنانچہ سعید بن جبیر اور قتادہ سے یہی مروی ہے ان لوگوں نے جو استدلال کیا ہے وہ ہر کافر کے بارے میں عام ہے جبکہ ہمارے سامنے اس وقت مسئلہ خاص اہل کتاب عورتوں سے نکاح کی حلت کا ہے اور اصول یہ ہے کہ خاص کو مقدم کرنا واجب ہے جب یہ ثابت ہو گیا تو پھر زیادہ بہتر بات یہ ہے کہ کتابیہ سے شادی نہ کی جائے کیونکہ حضرت عمر فاروقؓ نے بھی ان لوگوں سے کہا تھا جنہوں نے اہل کتاب خواتین سے شادی کی تھی کہ انہیں طلاق دے دو تو حضرت حذیفہؓ کے سوا دیگر تمام لوگوں نے انہیں طلاق دے دی حضرت عمرؓ نے ان سے بھی فرمایا کہ اسے طلاق دے دو تو حضرت حذیفہؓ نے جواب دیا، کیا آپ یہ گواہی دیتے ہیں کہ یہ حرام ہے؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ وہ مست کر دینے والی ہے اسے طلاق دے دو۔ انہوں نے پھر کہا کیا آپ یہ گواہی دیتے ہیں کہ یہ حرام ہے؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ وہ مست کر دینے والی ہے تو حضرت حذیفہؓ نے کہا کہ یہ مجھے معلوم ہے کہ وہ مشکوک اور ناقابل اعتماد ہے لیکن یہ مجھ پر حلال ہے۔ لیکن بعد میں جب انہوں نے طلاق دے دی تو ان سے پوچھا گیا کہ جب حضرت عمرؓ نے آپ کو حکم دیا تو آپ نے اس وقت طلاق کیوں نہ دی؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے اس بات کو ناپسند کیا کہ لوگ یہ سمجھیں کہ میں نے ایک ایسا کام کیا ہے جو مجھے نہیں کرنا چاہی تھا ۔ کتابیہ عورت سے شادی کرنے میں اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ کہیں اس کی طرف دل کا میلان اس قدر زیادہ نہ ہو جائے کہ وہ فتنہ ہی میں مبتلا کر دے یاہو سکتا ہے کہ دونوں سے پیدا ہونے والی اولاد کا رجحان(میلان) ماں کی طرف ہو جائے‘‘ صاحب‘‘ المغنی‘‘ؒ کا کلام ختم ہوا۔

حافظ ابن کثیر اور صاحب’’ المغنی‘‘ نے جو ذکر کیا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ارشاد باری تعالیٰ

﴿وَلا تَنكِحُوا المُشرِ‌كـٰتِ حَتّىٰ يُؤمِنَّ...٢٢١﴾... سورة البقرة

’’ اور تم (اے مومنو!) مشرک عورتوں سے جب تک وہ ایمان نہ لائیں نکاح مت کرو۔‘‘

اور فرمان الٰہی ہے:

﴿اليَومَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبـٰتُ ۖ وَطَعامُ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ حِلٌّ لَكُم وَطَعامُكُم حِلٌّ لَهُم ۖ وَالمُحصَنـٰتُ مِنَ المُؤمِنـٰتِ وَالمُحصَنـٰتُ مِنَ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ مِن قَبلِكُم...٥﴾... سورة المائدة

’’ آج تمہارے لئے تمام پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئیں ہیں اور اہل کتاب کا ذبیحہ تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا ذبیحہ ان کے لئے حلال ہے اور پاک دامن عورتیں اور اہل کتاب کی پاک دامن عورتیں بھی حلال ہیں۔‘‘

میں دو وجہ سے کوئی تعارض نہیں ہے پہلی وجہ تو یہے کہ اطلاق کے وقت اہل کتاب مشرکین میں داخل نہیں ہوتے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بہت سی آیات میں ان کا الگ الگ ذکر فرمایا ہے۔ جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے۔

﴿لَم يَكُنِ الَّذينَ كَفَر‌وا مِن أَهلِ الكِتـٰبِ وَالمُشرِ‌كينَ مُنفَكّينَ ... ﴿١﴾... سورة البينة

’’ جو لوگ کافر ہیں یعنی اہل کتاب اور مشرکین وہ (کفر) س باز رہنے والے نہ تھے۔‘‘

اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کافرمان ہے۔:

﴿إِنَّ الَّذينَ كَفَر‌وا مِن أَهلِ الكِتـٰبِ وَالمُشرِ‌كينَ فى نارِ‌ جَهَنَّمَ خـٰلِدينَ فيها...٦﴾... سورة البينة

’’ بے شک وہ لوگ جو اہل کتاب سے ہوں یا مشرکین سے ، وہ ہمیشہ مشرکین سے، وہ ہمیشہ کے لئے جنہم میں جائیں گے۔‘‘

 اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔

﴿ما يَوَدُّ الَّذينَ كَفَر‌وا مِن أَهلِ الكِتـٰبِ وَلَا المُشرِ‌كينَ أَن يُنَزَّلَ عَلَيكُم مِن خَيرٍ‌ مِن رَ‌بِّكُم...١٠٥﴾... سورة البقرة

’’ جو لوگ کافر ہیں اہل کتاب سے یا مشرکین سے، وہ کبھی بھی پسند نہیں کرتے کہ تم پر تمہارے رب کی طرف سے کچھ بھلائی نازل ہو۔‘‘

اس طرح قرآن مجید کی دیگر آیات میں بھی اہل کتاب اور مشرکین کے درمیان فرق کیا گیا ہے لہٰذا پاک دامن اہل کتاب عورتیں ان مشرک عورتوں میں داخل نہیں ہیں جن کے ساتھ نکاح کرنے سے منع کیا گیا ہے لہٰذا ان دو آیتوں میں کوئی تعارض نہیں۔

لیکن یہ قول محل نظر ہے کیونکہ زیادہ صحیح یہی بات ے کہ اہل کتاب خواہ وہ مرد ہوں یا عورتیں طلاق کے وقت مشرک مردوں اور عورتوں میں داخل ہیں کیونکہ وہ بلا شک و شبہ کافر اور مشرک ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے لئے مسجد حرام میں داخلہ کی ممانعت ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِنَّمَا المُشرِ‌كونَ نَجَسٌ فَلا يَقرَ‌بُوا المَسجِدَ الحَر‌امَ بَعدَ عامِهِم هـٰذا ۚ ...﴿٢٨﴾... سورة التوبة

’’ مومنو! مشرک تو پلید ہیں تو اس برس کے بعد وہ خانہ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں۔‘‘

اگر اہل کتاب عند الالطاق(مطلقاً) مشرکوں میں داخل نہ ہوتے تو یہ آیت انہیں شامل نہ ہوتی، سورۃ توبہ میں اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاری کا عقیدہ ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے:

﴿وَما أُمِر‌وا إِلّا لِيَعبُدوا إِلـٰهًا و‌ٰحِدًا ۖ لا إِلـٰهَ إِلّا هُوَ ۚ سُبحـٰنَهُ عَمّا يُشرِ‌كونَ...٣١﴾... سورة التوبة

’’ ان کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ اللہ واحد کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں، اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ ان لوگوں کے شریک مقرر کرنے سے پاک ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ  نے ان سب کو شرک کا مرتکب قرار دیا کیونکہ یہودیوں نے کہا۔عزیز اللہ کا بیٹا ہے اور عیسائیوں نے کہا۔مسیح اللہ کا بیٹا ہے اور ان سب نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر اپنے علماء اور مشائخ کو اپنا رب بنا لیا تھا اور یہ سب کچھ شرک کی بدترین صورت ہے اور اس مضمون کی آیات بہت زیادہ ہیں۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ سورۃ مائدہ کی آیت سورۃ بقرہ کی آیت کی تخصیص کر رہی ہے اور خاص عام سے مقدم ہوتا ہے جیسا کہ یہ اصول فقہ کا ایک معروف قاعدہ ہے اور اس پر فی الجملہ اجماع بھی ہے اور یہی بات درست بھی ہے اور اسی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پاک دامن اہل کتاب عورتوں سے نکاح کرنا مسلمانوں کے لئے حلال ہے اور یہ ان مشرک عورتوں میں داخل نہیں ہیں جن کے ساتھ نکاح کرنے سے منع کیا گیا ہے چنانچہ جمہور اہل علم کا یہی مذہب ہے بلکہ اس پر اجماع ہے جیسا کہ صاحب’’المغنی‘‘ کے کلام کے حوالے سے قبل ازیں بیان کیا گیا ہے لیکن ان سے نکاح کرنے کے بجائے پاک دامن مومن عورتوں سے نکاح کرنا بہتر اور افضل ہے جیسا کہ امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب، آپ کے صاحبزادے عبداللہ اور سلف صالحؓ کی ایک جماعت سے ثابت ہے کیونکہ اہل کتاب عورتوں سے نکاح کرنے میں خصوصاً غربت اسلام کے اس دور میں بے حدخطرات ہیں، جس میں نیک اور دین میں سمجھ بوجھ رکھنے والے آدمی بہت کم ہیں اور عورتوں کی طرف میلان رکھنے والوں اور ہر چیز میں ان کی سمع و اطاعت بجا لانے والوں کی کثرت ہے۔ الا ماشاء اللہ ۔ لہٰذا اس میں یہ بھی خطرہ ہے کہ کتابیہ عورت اپنے مسلمان شوہر اور اس کی اولاد کو اپنے دین و اخلاق کی طرف نہ لے جائے۔

 اگر یہ سوال کیا جائے کہ اس میں کیا حکمت ہے  کہ پاک دامن اہل کتاب عورتوں سے مسلمان مردوں کے لئے شادی کرنا تو جائز ہے لیکن مسلمان عورتوں کے لئے اہل کتاب مردوں سے شادی کرنا جائز نہیں ہے؟ تو اس کے جواب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسلمان جب اللہ تعالیٰ  اس کے رسولوں اور ان پر نازل کردہ کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں تو رسولوں میں حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام اور حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام بھی ہیں او ان کتابوں میں تورات بھی ہے جو حضرت موسیٰ علیہ اسلام پر نازل ہوئی اور انجیل بھی ہے جو حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام پر اتری۔ تو مسلمانوں کا جب اللہ تعالیٰ کے تمام  نبیوں او اس کی تمام کتابوں پر ایمان ہے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم اور احسان کی تکمیل فرماتے ہوئے ان کے لئے پاک دامن اہل کتاب عورتوں سے نکاح کو جائز قرار دے دیا لیکن اہل کتاب نے جب حضرت محمدﷺ اور آپ پر نازل کی گئی کتاب عظیم قرآن مجید کے ساتھ کفر کیا تو ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے مسلمان عورتوں سے نکاح کو اس وقت تک حرام قرار دے دیا جب تک کہ یہ اللہ تعالیٰ کے نبی و رسول بلکہ خاتم الانبیا و المرسلین حضرت محمدﷺ کی ذات گرامی پرایمان نہیں لاتے، اگر یہ ایمان لے آئیں تو پھر ان کے لئے ہماری عورتوں سے بھی نکاح کرنا حلال ہو گا اور ہمارے اور ان کے حقوق و فرائض ایک جیسے ہو جائیں گے اللہ سبحانہ و تعالیٰ حاکم ہے، عادل ہے، اپنے بندوں کے حالات کو دیکھنے والا اور ان کی مصلحتوں کو جاننے والا ہے اس کا ہر فیصلہ اور ہر حکم حکمت و مصلحت پر مبنی ہے، وہ گمراہوں ، کافروں اور تمام مشرکوں کے قول سے پاک اور منزہ ہے۔

اس میں ایک حکمت اور بھی ہے اور یہ ہے کہ عورت ضعیف اور کمزور ہے ، وہ اپنے شوہر کی فوراً اطاعت شروع کردیتی ہے ، اگر مسلمان عورت کے لئے اہل کتاب مردوں سے شادی کرنا جائز قرار دے دیا جاتا تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ اکثر و بیشتر عورتیں اپنے شوہر کے دین کو اختیار کر لیتیں اس لئے اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا یہ ہوا کہ اسے حرام قرار دے دیا گیا۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج3ص190

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ