سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(206) حالت حیض میں عقد نکاح

  • 9661
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 3066

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں ایک نوجوان لڑکی ہوں، کچھ عرصہ پیشتر ایک نوجوان لڑکے سے میری شادی کی تاریخ طے ہو گئی تھی مگر اتفاق سے اس تاریخ کو میرے ماہانہ معمول کا آغاز تھا ، میں نے اس بارے میں پوچھا بھی کہ اس حالت میں نکاح جائز ہے یا نہیں ؟ مجھے بتایا گیا کہ یہ جائز ہے لیکن میری تسلی نہیں ہوئی، اس لئے امید ہے کہ آپ رہنمائی فرمائیں گے کہ یہ نکاح صحیح ہے یا نہیں ؟ اگر یہ نکاح صحیح نہیں ہے تو کیا نکاح کا اعادہ واجب ہے ؟ اللہ تعالیٰ آپ کو اجر و ثواب سے نوازے!


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حالت حیض میں عورت سے عقد نکاح جائز ہے اور صحیح ہے اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ عقود کے بارے میں اصل یہ ہے کہ وہ حلال اور صحیح ہیں الا یہ کہ ان میں سے کسی کی حرمت کے متعلق کوئی دلیل موجود ہو اور حالت حیض میں نکاح کی حرمت کے بارے میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے لہٰذا مذکورہ عقد صحیح ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں۔ یہاں یہ بھی ضروری ہے کہ ہم عقد نکاح اور طلاق میں فرق کو بھی معلوم کر لیں یاد رہے حالت حیض میں طلاق حلال نہیں بلکہ حرام ہے، رسول اللہﷺ نے اس وقت ناراضگی کا اظہار فرمایا تھا جب آپ کو یہ معلوم ہوا کہ عبداللہ بن عمر بن خطابؓ نے اپنی بیوی کوحالت حیض میں طلاق دے دی ہے، آپﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ رجوع کریں، بیوی کے قریب نہ جائیں  حتیٰ کہ وہ پاک ہو جائے پھر اسے حیض آئے او پھر  پاک ہو جائے اور پھر اس کے بعد اگر وہ چاہیں تو بیوی کو اپنے پاس رکھیں یا اسے طلاق دے دیں کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا النَّبِىُّ إِذا طَلَّقتُمُ النِّساءَ فَطَلِّقوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحصُوا العِدَّةَ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَ‌بَّكُم ۖ لا تُخرِ‌جوهُنَّ مِن بُيوتِهِنَّ وَلا يَخرُ‌جنَ إِلّا أَن يَأتينَ بِفـٰحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ ۚ وَتِلكَ حُدودُ اللَّهِ ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدودَ اللَّهِ فَقَد ظَلَمَ نَفسَهُ ۚ لا تَدر‌ى لَعَلَّ اللَّهَ يُحدِثُ بَعدَ ذ‌ٰلِكَ أَمرً‌ا ﴿١﴾... سورة الطلاق

’’ اے نبیﷺ!(مسلمانوں سے کہہ دیجیئے کہ) جب تم عورتوں کو طلاق دینے لگو تو ان کی عدت کی شرح میں طلاق دو اور عدت کا شمار رکھو(عدت کو یاد رکھو) اور اللہ سے ڈرو جو تمہارا پروردگار ہے (نہ تو تم ہی)ان کو (ایام عدت میں) ان کے گھروں سے نکالو اور نہ (وہ خود بخود ہی)نکلیں ہاں اگر وہ صریح بے حیائی کریں(تو نکال دینا چاہیے) اور یہ اللہ کی حدیں ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کی حدوں سے تجاوز کرے گا تو وہ اپنے آپ پر ظلم کرے گا۔‘‘

لہٰذا کسی مرد کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنی بیوی کو حالت حیض میں یا کسی ایسی حالت طہر میں ، جس میں اس نے مباشرت کی ہو، طلاق دے ہاں البتہ اگر یہ واضح ہو گیا ہو کہ بیوی حاملہ ہے تو پھر جب چاہے اسے طلاق دے سکتا ہے، طلاق واقع ہو جائے گی۔

عجیب بات یہ ہے کہ عوام میں یہ بات مشہور ہے کہ حاملہ عورت کو دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی حالانکہ یہ بات صحیح نہیں ہے کیونکہ حاملہ عورت کو دی گئی طلاق واقع ہو جاتی ہے لہٰذا مرد کے لئے حالت حمل میں بیوی کو طلاق دینا جائز ہے خواہ اس نے زمانہ قریب ہی میں اس سے مباشرت بھی کی ہو لیکن اگر غیر حاملہ سے مباشرت کی ہو تو پھر انتظار کرنا پڑے گا کہ اسے حیض آ جائے اور پھر وہ پاک ہو جائے یا واضح ہو جائے کہ اسے حمل قرار پایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الطلاق میں ارشاد فرمایا ہے:

﴿وَأُولـٰتُ الأَحمالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعنَ حَملَهُنَّ...٤﴾... سورة الطلاق

’’ اور حمل والی عورتوں کی مدت وضع حمل(بچہ جننے) تک ہے۔‘‘

یہ آیت بھی اس بات کی واضح دلیل ہے کہ حاملہ عورت کو دی گئی طلاق واقع ہو جاتی ہے حدیث ابن عمر کے بعض طریق میں یہ الفاظ بھی ہیں۔

((مره فليراجعها ثم ليطلقها طاهرا أو حاملا)) ( صحيح البخاري )

’’اس کو حکم دیجیئے کہ وہ رجوع کرے اور پھر اپنی بیوی کو حالت طہر یا حالت حمل میں طلاق دے۔‘‘

جب یہ بات واضح ہو گی کہ حالت حیض میں عقد نکاح جائز اور صحیح ہے لیکن میری رائے میں بیوی جب تک پاک نہ ہو جائے شوہر کو اس کے پاس علیحدگی میں نہیں جانا چاہیے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو قابو میں نہ رکھ سکے اور بحالت حیض مباشرت کر کے حرام کام کا ارتکاب کر بیٹھے خصوصاً شوہر اگر جوان ہو تواسے اور بھی اور زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے یعنی اسے انتظار کرنا چاہیے کہ جب اس کی بیوی پاک ہو جائے تو پھر اس کے پاس جائے تاکہ فطری طریقے سے اس سے مستفید ہو سکے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج3ص170

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ