سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(201) جب باپ اپنی بیٹیوں کے مناسب رشتوں سے انکار کر دے

  • 9656
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 1053

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہم کئی بہنیں ایک ہی مکان میں رہائش پذیر ہیں، ہمارے لئے کئی مناسب نوجوانوں کے رشتے آئے مگر ہمارے والد صاحب چونکہ نفسیاتی مریض ہیں اس لئے وہ رشتہ دینے سے ہرایک کو انکار کر دیتے ہیں، کیا اس صورت حال میں قاضی ہماری شادی کرا سکتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہاں ولی جب کسی عورت کے دین و اخلاق کے اعتبار سے کفو(ہم پلہ مرد) سے شادی کرنے سے انکار کردے تو پھر ولایت اس کی بجائے عصبات میں سے قریب ترین رشتہ دار کی طرف منتقل ہو جاتی ہے۔ اور اگر رشتہ دار بھی شادی سے انکار کر دیں جیسا کہ عموماً آج کل ہو رہا ہے تو پھر ولایت حاکم شرعی کی طرف منتقل ہو جاتی ہے لہٰذا حاکم شرعی پر واجب ہے کہ وہ ایسی عورت کی شادی کرا دے جس کے ورثاء کے متعلق اسے معلوم ہو کہ وہ اس کی شادی میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں کیونکہ حاکم شرعی کو ولایت خاصہ حاصل نہ بھی ہو تو اس کو ولایت عامہ حاصل ہو تی ہے۔

فقہاء کرامؒ نے ذکر فرمایا ہے کہ جب کوئی ولی کفو(ہم پلہ) رشتوں کو بار بار رد کر دے تو اس سے وہ فاسق ہو جاتا ہے اور اس کی عدالت و ولایت ساقط ہو جاتی ہے بلکہ امام احمدؒ کے مذہب (قول) کے مطابق اس کی امامت بھی ساقط ہو جاتی ہے یعنی وہ اس بات کا اہل بھی نہیں رہتا کہ نماز میں مسلمانوں کی امامت کے فرائض سرانجام دے سکے، اس سے اندازہ فرمائیں کہ یہ کس قدر اہم معاملہ ہے۔

جیسا کہ ہم نے ابھی اشارہ کیا ہے، بعض لوگ اپنی لڑکیوں کے ہم پلہ رشتوں کو بھی مسترد کر دیتے ہیں اور لڑکیاں قاضی کے پاس اپنی شادی کے مسئلہ کو لے جانے میں حیا محسوس کرتی ہیں اور امر واقعی یہی ہے۔ ان حالات میں لڑکی کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے مصالح و مفاسد کا جائزہ لے او دیکھے کہ کیا زیادہ خرابی اس میں ہے کہ وہ شادی کے بغیر رہے اور اس کے متعلق وہ ولی اپنے مزاج اور خواہش کے مطابق فیصلہ کرے خواہ وہ بڑی ہو جائے حتیٰ کہ وہ بالآخر خود ہی اس کی شادی کر دے گا یا زیادہ خرابی اس میں ہے کہ وہ قاضی کے پاس جائے اور اس سے مطالبہ کرے کہ وہ اس کی شادی کا بندوبست کرے۔ یاد رہے اسے اس مسئلہ میں قاضی کے پاس جانے کا پورا پورا شرعی حق حاصل ہے۔

بلا شک و شبہ ان میں سے دوسری صورت ہی زیادہ بہتر ہے یعنی یہ کہ وہ قاضی کے پاس جائے اور اس سے مطالبہ کرے کہ وہ اس کی شادی کا مسئلہ حل کرے کیونکہ اسے قاضی کی عدالت میں جانے کا پورا پورا حق حاصل ہے اور پھر دوسری خواتین کی مصلحت بھی اسی میں ہے کہ یہ عدالت سے رجوع کریں کہ اس طرح انہیں عدالت سے رجوع کر کے ان ظالموں کے ظلم و استبداد سے نجات پانے کا موقع ملے گا کہ جو اپنی خواتین کو ہم پلہ لوگوں سے شادی کرنے سے منع کرکے ان پر ظلم کرتے ہیں یعنی گویا اس میں تین حسب ذیل مصلحتیں ہیں۔

1۔ اس میں عورت کی اپنی مصلحت ہے کہ اس طرح اس کی شادی ہو جائے گی اور وہ خاوند کے بغیر زندگی نہیں گزارے گی۔

2۔ اس میں دوسری عورتوں کی بھی مصلحت ہے کہ اس طرح ایسی عورتوں کے لئے بند دروازہ کھل جائے گا جو اس انظار میں ہیں کہ کوئی پہل کرے اور وہ اس کے نقش و قدم پر چلیں۔

3۔ اس سے ان ظالموں کو بھی روکا جا سکے گا جو اپنی بیٹیوں یا ان خواتین کے بارے میں جن کا اللہ تعالیٰ نے انہیں ولی بنایا، اپنے ارادہ اور اپنی خواہش پر ہی ہر صورت میں عمل کرنا چاہتے ہیں۔

نیز اس میں یہ مصلحت بھی ہے کہ اس طرح رسولﷺ کے اس فرمان پر عمل پیرا ہونے کا موقع ملے گا۔

((إذا خطب إليكم من ترضون دينه وخلقه فزوجود إلا تفعلوا تكن فتنة في الأرض وفساد عريض)) ( جامع الترمذي)

’’جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص رشتہ طلب کرنے کے لئے آئے جس کا دین و اخلاق تمہیں پسند ہو تو اسے اسے رشتہ دے دو ورنہ زمین میں فتنہ اور بہت بڑا فساد رونما ہو جائے گا۔‘‘

اس میں ایک خاص مصلحت یہ بھی ہے کہ اس طرح عورتوں کے ان رشتہ طلب کرنے والوں کی بھی ضرورت پوری ہو جائے گی جو دین و اخلاق کے اعتبار سے کفو(ہم پلہ) ہوں۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج3ص167

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ