سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(193) بیوی کے باپ کی بیوی سے نکاح کرنا

  • 9648
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1273

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

دو آدمی ہیں ان میں سے ایک نے دوسرے کی بیٹی سے شادی کی، پھر بیٹی کی ماں یعنی دوسرے کی بیوی فوت ہو گئی تو اس نے ایک اور عورت سے شادی کر لی اور پھر یہ آدمی بھی فوت ہو گیا تو سوال یہ ہے کہ کیا پہلے آدمی کے لئے یہ درست ہے کہ وہ اپنی بیوی کے باپ کی بیوی سے نکاح کرے اور اگر وہ بیٹی کی طلاق کی صورت میں اس کی جگہ اس کے باپ کی بیوی سے شادی کر لے تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

پہلے آدمی کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ اپنی بیوی کے باپ کی بیوی سے شادی کرے، بشرطیکہ وہ اس کی بیوی کی ماں نہ ہو ، اس کے ساتھ شادی کرنے میں کوئی حرج نہیں خواہ اس کے شوہر کی بیٹی اس کے ساتھ ہی ہو کیونکہ ان دونوں بیویوں یعنی اس کی پہلی بیو یاور اس کے باپ کی بیوی کے درمیان کوئی قرابت داری نہیں ہے اور جن خواتین سے بیک وقت نکاح حرام ہے وہ یہ ہیں۔1۔ دونوں بہنیں۔2۔ عورت اور اس کی خالہ۔3۔ عورت اور اس کی پھوپھی، اس کے علاوہ دیگر عورتوں سے بیک وقت نکاح حلال ہے کیونکہ محرمات کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

﴿وَأُحِلَّ لَكُم ما وَر‌اءَ ذ‌ٰلِكُم أَن تَبتَغوا بِأَمو‌ٰلِكُم ...٢٤﴾... سورة النساء

’’اور ان(محرمات) کے سوا اورر عورتیں تم کو حلال ہیں اس طرح سے کہ مال خرچ کر کے ان سے نکاح کرلو۔‘‘

بعض سلف نے اس بات کو مکروہ سمجھا ہے کہ آدمی عورت اورر اس کے باپ کی بیوی کو اکٹھا کرے لیکن اس کراہت کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے۔:

﴿وَأُحِلَّ لَكُم ما وَر‌اءَ ذ‌ٰلِكُم...٢٤﴾... سورة النساء

’’اور ان (محرمات) کے سوا اور عورتیں تمہارے لئے حلال ہیں۔‘‘

جب آدمی کے لئے ایک عورت اور اس کے باپ کی بیوی کو یکجا کرنا جائز ہے تو یہ بالاولی جائز ہو گا کہ وہ اپنی بیوی سے فراق کے بعد اس کے باپ کی بیوی سے شادی کرے۔

ماں اور اس کی بیٹی کے حوالے سے بات یہ ہے کہ بیٹی اگر بیوی ہے تو اس کی ماں اس کے لئے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محض عقد ہی سے حرام ہو جاتی ہے اور اگر ماں بیوی ہے اور شوہر نے اس کے ساتھ مباشرت بھی کی ہے تو بیٹی اس کے لئے ہمیشہ ہمیشہ کے حرام ہے اورر اگر اس کے ساتھ مباشرت نہ کی ہو تو اس کو چھوڑ کر اس کی بیٹی کے ساتھ شادی کر سکتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے محرمات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے:۔

﴿وَأُمَّهـٰتُكُمُ الّـٰتى أَر‌ضَعنَكُم وَأَخَو‌ٰتُكُم مِنَ الرَّ‌ضـٰعَةِ وَأُمَّهـٰتُ نِسائِكُم وَرَ‌بـٰئِبُكُمُ الّـٰتى فى حُجورِ‌كُم مِن نِسائِكُمُ الّـٰتى دَخَلتُم بِهِنَّ فَإِن لَم تَكونوا دَخَلتُم بِهِنَّ فَلا جُناحَ عَلَيكُم...وَأَن تَجمَعوا بَينَ الأُختَينِ إِلّا ما قَد سَلَفَ...٢٣﴾... سورة النساء

’’اور تمہاری ساسیں حرام کر دی گئی ہیں اور جن عورتوں سے تم مباشرت کر چکے ہو اور ان کی لڑکیاں جن کی تم پرورش کرتے ہو(وہ بھی تم پر حرام ہیں) ہاں اگر ان کے ساتھ تم نے مباشرت نہ کی ہو تو (ان کی لڑکیوں کے ساتھ نکاح کر لینے میں)تم پر کچھ گناہ نہیں… اور دو بہنوں کا اکٹھا کرنا بھی حرام ہے مگر جو ہو چکا (سو ہو چکا۔)‘‘

نیز نبیﷺ نے فرمایا:

 ((لايجمع بين المرأة وعمتها ولابين المرأة و خالتها )) (صحيح البخاري )

’’عورت اورر اس کی پھوپھی اور عورت اور اس کی خالہ کو اکٹھا نہ کیا جائے۔‘‘

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب النکاح : جلد 3  صفحہ 161

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ