سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(149) شادی سے پہلے سوال نمبر2

  • 9589
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1310

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آج کل یہ عادت عام ہے کہ لڑکی یا اس کا والد رشتہ طلب کرنے والوں کو یہ کہہ کر مسترد کر دیتے ہیں کہ وہ ثانوی یا یونیورسٹی کی تعلیم کی تکمیل کے بعد بلکہ چند سال تک کسی ادارے میں پڑھانے کے بعد شادی کریں گے اور اس طرح بعض لڑکیاں شادی کے بغیر تیس سال یا اس سے بھی زیادہ عمر کی ہو جاتی ہیں، تو اس کے بارے میں آپ کی کیا نصیحت ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مذکورہ بالا سوال کا شیخ ابن عثیمین کے قلم سے جواب:

یہ بات نبی اکرمﷺ کے حکم کے خلاف ہے کیونکہ آپﷺ نے فرمایا  ہے کہ جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص آئے جس کا دین و اخلاق تمہیں پسند ہو تو اسے نکاح دے دو‘‘ نیز آپﷺ نے فرمایا ہے:

((يامعشر الشباب من استطاع منكم الباءة فليتزوج فإنه أغض للبصر وأحصن للفرج )) ( صحيح البخاري)

’’اے گروہ نوجوانان: تم میں سے جو شادی کی طاقت رکھتا ہو تو وہ شادی کر لے کیونکہ یہ نظروں کو نیچی رکھنے والی اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والی ہے۔‘‘

شادی نہ کرنے سے وہ مقاصد فوت ہو جاتے ہیں جن کی خاطر شادی کی جاتی ہے لہٰذا میں عورتوں کے وارثوں، مسلمان بھائیوں اور بہنوں سے یہ کہوں گا کہ وہ تعلیم یا تدریس کی تکمیل کے بہانے شادی سے انکار نہ کریں کیونکہ عورت یہ شرط بھی عائد کر سکتی ہے کہ وہ نکاح کے بعد تکمیل تک اپنی تعلیم کو جاری رکھے گی یا ایک دو سال تک وہ تدریس کو جاری رکھے  گی اور بچوں میں مشغول نہیں ہو گی تو اس میں کوئی حرج نہیں ہاں  البتہ یہ بات ضرور قابل غور ہے کہ کیا ہمیں واقعی اس بات کی ضرورت ہے کہ عورت ضرور یونیورسٹی تک کی تعلیم حاصل کرے۔ میری رائے میں تو عورت اگر ابتدائی مرحلے کی تعلیم حاصل کرے، اسے اس قدر لکھنا پڑھنا آ جائے کہ وہ  کتاب اللہ اور اس کی تفسیر اور احادیث نبوی اور ان کی تشریح پر مشتمل کتاب کا مطالعہ کر سکے تو یہ کافی ہے الا یہ کہ وہ ایسے علوم میں ترقی کرے جن کے بغیر لوگوں کے لئے چارہ کار ہی نہیں مثلاً ڈاکٹری وغیرہ کی تعلیم بشرطیکہ اس میں اختلاط جیسا کوئی ممنوع امرمانع نہ ہو۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب النکاح : جلد 3  صفحہ 126

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ