سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(122) محفلوں اور حکومتی پروگراموں میں بچیوں کا جانا

  • 9562
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1041

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا حکومتی ادارے قومی محفلوں کے نام سے ان پروگراموں میں شرکت کے لئے بچیوں کو مجبور کر سکتے ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

امتوں کو سعادت و کامرانی ، ترقی، انتظامی خوبی اور حفاظت و استحکام صرف اسی صورت میں حاصل ہو سکتا ہے کہ ان کے حکمران اور قائدین اللہ تعالیٰ کی توفیق کے ساتھ عقیدہ، قول و عمل اور تنازعات کے حل میں انہیں کتاب اللہ اور سنت رسولﷺ کے منہاج پر چلائیں۔

اس طرح حکمرانوں اور قائدین کو بھی استحکام و اعتبار اور وجاہت ایسی امتوں ہی کی بدولت حاصل ہو سکتی ہے  جو زندگی کے تمام پہلوئوں دین ، استقامت، علم، ثقافت، صنعت، زراعت، قوت، اور ترقی میں ان امور کو پیش نظر رکھیں جو قوموں کو عروج پر پہنچا دیتے ہیں اور ان کے افراد کو سر بلندی سے ہمکنار کر تے ہیں کہ وہ ایک ایسا اعلیٰ عملی نمونہ بن جاتے ہیں کہ عقل مند لوگ ازراہ تعجب نظریں اونچی کر کے انہیں دیکھتے ہیں اور ان کے حالات کو جاننے والے ان سے ڈرتے ہیں۔

حکمران اپنی قوموں کے ساتھ  جس قدر خیر و بھلائی کے ساتھ حسن سیاست کی روشن اختیار کریں گے اور جس قدر ان کی اصلاح کی طرف توجہ مبذول کریں گے، وہ اسی قدر قوت و عزت اور عظمت و شوکت کی صورت میں اس کے ثمرات بھی حاصل کریں گے اور قومیں بھی جس قدر اپنے مصلح حکمرانوں کی آواز پر لبیک کہیں گی، معروف کو قبول کریں گی اور اس کے حصول میں ان کے ساتھ تعاون کریں گی، اسی قدر سعاوت و کامرانی، خوش حالی و فارغ البالی اور راحت و اطمینان کی دولت سے فیض یاب ہوں گی۔

مسلمانوں حکمرانوں پر واجب ہے کہ وہ اپنی اپنی قوموں میں اسلامی سیاست کو بروئے کار لائیں۔رسول اللہﷺ کے نقش قدم پر چلیں، آپﷺ کی رہنمائی کے نور سے روشنی حاصل کریں اور خلفاء راشدین کے طرز سیاست کو اپنے لئے مشعل راہ بنائیں تاکہ وہ خود بھی اور ان کی قومیں بھی سعادت و کامرانی سے ہمکنار ہوں، دنیا و آخرت کی کامیابیوں سے شاد کام ہوں، انہیں اسلامی شریعت اور اس کے مبنی برعدل و انصاف اسلوب حکومت کی مخالفت سے اجتناب کرنا چاہیے ورنہ اپنی خواہشات نفس کی پیروی اور کافر حکومتوں کی اندھی تقلید کی وجہ سے یہ تباہی و بربادی کے گڑھیوں میں گر جائیں گے جیسا کہ یہ کافر حکومتیں اپنے غلط نظام حکومت، اخلاقی بے راہ روی، تہذیبی و ثقافتی خرابی، تعلیمی اداروں میں لہوو لعب اور مستی و بے حیائی کے چلن اور مخلوط تعلیم کی وجہ سے آج تباہی و بربادی کے گڑھوں میں گرے ہوئے ہیں اگر مسلمانوں نے بھی ایسا کیا تو ان کا شیرازہ  بکھر جائے گا، ان کی قوت و شوکت ماند پڑ جائے گی ، اللہ تعالیٰ  انہیں ذلیل و رسوا کرے گا اور انہیں عذاب سے دوچار کرے گا کہ فتنہ و فساد پھیلانے والوں کی یہی سزا ہے۔

آخر میں یہاں اس جانب توجہ مبذول کرانا بھی ضروری ہے کہ وہ ذات گرامی، جنہیں جوامع الکلم کے معجزے سے نوازا گیا تھا کے اس ارشاد سے بڑھ کر کوئی انسانی قول زیادہ خوبصورت، زیادہ مکمل اور زیادہ جامع نہیں ہے جو آپﷺ نے یوں فرمایا ہے:

(( أَلا كُلُّكُمْ رَاعٍ ، وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ ، فَالأَمِيرُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ ، وَامْرَأَةُ الرَّجُلِ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ بَعْلِهَا وَوَلَدِهِ وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْهُمْ ، وَالْعَبْدُ مَسْئُولٌ عَلَى مَالِ سَيِّدِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُ ، أَلا وَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ )) (صحيح البخاري)

’’خبردار تم سے ہر ایک نگہبان ہے اور اپنی رعایا کے بارے میں جوابدہ، امام جو لوگوں کا نگہبان ہے، وہ اپنی رعیت کے بارے میں جوابدہ ہے، مرد اپنے اہل خانہ کا نگہبان اور اپنی رعیت کے بارے میں جوابدہ ہے، عورت اپنے شوہر کے اہل خانہ ا ور اس کی اولاد کی نگہبان ہے اور اس کے بارے میں جوابدہ ہے، اور غلام(نوکر) اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے اور اس کے بارے میں جوابدہ ہے، خبردار: تم سب نگہبان ہو اور اپنی اپنی رعیت کے بارے میں جوابدہ ہو۔‘‘

آپﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے:

((ما من عبد يسترعيه الله  رعية فلم يحطها بنصحه إلا لم يجد رائحة الجنة )) ( صحيح البخاري)

’’جس شخص کو بھی اللہ تعالیٰ کسی رعیت کا نگہبان بنا دے اور وہ ان کی ہمدردی و خیر خواہی نہ کرے تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پا سکے گا۔‘‘

اور ایک روایت میں الفاظ یہ ہیں:

((ما من وال يلي رعية من المسلمين فيموت وهو غاش لهم إلا حرم الله عليه الجنة )) (صحيح البخاري)

 ’’ ہر وہ شخص جو مسلمانوں کی کسی رعیت کا والی ہو اور وہ ان سے دھوکہ کرتے ہوئے فوت ہو تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت کو حرام قرار دے دے گا۔‘‘

 ہر حاکم کو چاہیے کہ اپنی رعایت کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرے، ان سے ہمدردی و خیر خواہی کرے اور ان میں حق کے ساتھ حکومت کرے کیونکہ ان کے بارے میں اس سے روز قیامت باز پرس ہو گی۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب النکاح : ج 3  صفحہ 98

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ