سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(69) مسلمان بیٹا اپنے مشرک باپ کے مال کا وارث نہیں

  • 9509
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1014

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر باپ نماز پنجگانہ اور دیگر ارکان اسلام کا تو پابند ہو لیکن مزاروں اور درباروں میں مدفون لوگوں کے لئے نذر اور ذبح کے جواز کا بھی عقیدہ رکھتا ہو تو کیا بیٹے کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ اپنے اس باپ کے مال میں سے اپنے مستقبل کو سنوارنے کے لئے کچھ لے یا اس کی وفات کے بعد  اس کے مال کا وارث بنے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جو بالغ مسلمان مردوں کے لئے نذر اور ذبح کے جواز کا عقیدہ رکھے تو اس کا یہ عقیدہ ایسا شرک اکبر ہے جو ملت اسلامیہ سے خارج کر دیتا ہے، ایسے شخص سے تین دن تک توبہ کا مطابہ کیا جائے گا اور اس پر سختی کی جائے گی، اگر توبہ کرے تو صحیح ورنہ اسے قتل کردیا جائے گا۔

باقی رہا مسئلہ کہ بیٹے کا اپنے مستقبل کو سنوارنے کے لئے اس کے مال سے کچھ لینا یا اس کی وفات کے بعد اس کا وارث بننا تو یہ اس بات پر مبنی ہے کہ وفات کے وقت باپ کی کیا حالت تھی اور اس کے عقیدہ کی کیا حقیقت تھی؟ یعنی اگر اس کے باپ کا اسی عقیدہ پرخاتمہ ہوا ہو اور یہ معلوم نہ ہو کہ اس نے اس عقیدہ سے توبہ کی ہے تو پھر یہ بیٹا اپنے باپ کا وارث نہ ہو گا کیونکہ نبیﷺ نے فرمایا ہے:

 ((لايرث المسلم الكافر ، ولا الكافر المسلم )) ( صحيح البخاري)

 ’’  مسلمان کافر کا اور کافر مسلمان کا وارث نہیں ہو سکتا۔‘‘

زندگی میں بیٹا اپنے اس باپ کے مال کو اس وقت تک نہیں لے سکتا، جب تک وہ اسے خوش دلی سے دیتا رہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج3ص65

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ