سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(10) گری ہوئی چیز ملے تو پورا ایک سال اعلان کیا جائے

  • 9451
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-16
  • مشاہدات : 1455

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مجھے سونے کی صورت میں گری ہوئی چیز ملی تو میں نے اسے فروخت کر کے اس کی قیمت کو صدقہ کر دیا اور نیت یہ کی کہ اگر اس کا مالک مل گیا اور وہ راضی نہ ہوا تو میں اس کی قیمت اپنی طرف سے ادا کردوں گا، مجھے یہ سونا ایک بڑے شہر کے وسط سے ملا تھا، کیا مجھ پر اس کا گناہ تو نہ ہو گا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ کے لئے اور ہر اس شخص کے لئے جسے کوئی اہم گری ہوئی چیز ملے، مکمل ایک سال تک لوگوں کے مجمعوں میں اس طرح اعلان کرنا واجب ہے کہ ہر ماہ دو یا تین بار اعلان کیا جائے، اگر مالک مل جائے تو وہ چیز اس کے سپرد کر دی جائے اور اگر نہ ملے تو ایک سال کے بعد یہ چیز اس کی ہو گی کیونکہ نبیﷺ کا اس مسئلے میں یہی فرمان ہے ہاں البتہ اگر وہ چیز حرمین سے ملی ہو تو پھر وہ شخص کبھی بھی اس کا مالک نہیں بن سکتا بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس چیز کا اعلان کرنا ہو گا حتیٰ کہ اس کے مالک کا پتہ چل جائے یا اسے حرمین میں متعلقہ محکمے کے سپرد کردیا جائے تاکہ وہ اس کی اس کے مالک کے لئے حفاظت کر سکے۔ نبیﷺ نے مکہ مکرمہ کے متعلق فرمایا تھا:

’’ لاتحل ساقطتها إلا لمنشد ‘‘ ( صحيح البخاري)

’’اس میں گری پڑی چیز بھی کسی کے لئے حلال نہیں ہے ہاں البتہ اسے وہ شخص اٹھا سکتا ہے جو اس کا اعلان کرنا چاہتا ہو۔‘‘

اسی طرح نبی اکرمﷺ نے یہ بھی فرمایا تھا:

’’ إنى حرمت المدينة كما حرم إبراهيم مكة ‘‘  ( صحيح البخاري ، البيوع )

’’ میں مدینہ کو حرم قرار دیتا ہوں  جس طرح ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دیا تھا۔‘‘

اگر لفظ(گری پڑی چیز) معمولی اور حقیر ہو مثلاً رسی، جوتے کا تسمہ یا تھوڑی رقم تو اس کا اعلان کرنا ضروری نہیں۔ ایسی چیز پانے والا شخص اس سے خود فائدہ اٹھائے یا اس کے مالک کی طرف سے اسے صدقہ کر دے۔ البتہ اس سے گمشدہ اونٹ وغیرہ ایسے حیوانات مستثنیٰ ہیں جو بھیڑیے جیسے چھوٹے درندوں سے اپنے آپ کو بچا سکتے ہیں لہٰذا اونٹ وغیرہ کو پکڑنا جائز نہیں ہے کیونکہ نبیﷺ نے اس کے متعلق پوچھنے والے سے فرمایا تھا:

’’ دعها فإن معها حذاءها وسقاءها ترد الماء وتاكل الشجر حتى يجدها ربها ‘‘ (صحيح البخاري)

’’اسے چھوڑ دے کیونکہ اس کا جوتا اور مشکیزہ اس کے ساتھ ہے، یہ خود پانی پر آ سکتا ہے اور درختوں کے پتے کھا سکتا ہے حتیٰ کہ اس کا مالک آ کر اسے خود لے لے گا۔‘‘

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج3ص28

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ