سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(65) نظر کی حقیقت اور اس کا علاج

  • 913
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 10416

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا انسان کو نظر لگ جاتی ہے اس کا علاج کیا ہے؟ کیا نظر سے بچنا توکل کے منافی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

نظر لگنا برحق ہے اور یہ شرعی اور حسی طور پر ثابت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَإِن يَكادُ الَّذينَ كَفَروا لَيُزلِقونَكَ بِأَبصـرِهِم...﴿٥١﴾... سورة القلم

’’اور کافر (جب یہ نصیحت کی کتاب سنتے ہیں تو) یوں لگتا ہے کہ تم کو اپنی (بری) نگاہوں سے پھسلا دیں گے۔‘‘

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ  وغیرہ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ وہ آپ کو نظر لگا دیں گے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

«اَلْعَيْنُ حَقٌّ وَلَوْ کَانَ شَيْئٌ سَابَقَ الْقَدْرَ سَقَبَتُْ الْعَيْنُ، وَاِذَا اسْتُغْسِلْتُمْ فَاغْسِلُوا»(سنن ابی داود، الطب، باب فی الطیرة، حدیث: ۳۹۲۵ وجامع الترمذی، الاطعمة، باب ماجاء فی الاکل مع المجزوم، حدیث: ۱۸۱۷)

’’نظر لگنا برحق ہے، اگر کوئی چیز تقدیر سے سبقت کرنے والی ہوتی تو نظر سبقت کرتی اور جب تم سے دھونے کا مطالبہ کیا جائے تو تم دھو دیا کرو۔‘‘

اسی طرح امام نسائی اور امام ابن ماجہ رحمہ اللہ  نے روایت کیا ہے کہ عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ  سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ  کے پاس سے گزرے، جب کہ وہ غسل کر رہے تھے اتفاق سے انہوں نے سہل بن حنیف ؓ دیکھ کر بے ساختہ کہا کہ: ’’میں نے آج تک کسی کنواری دو شیزہ کی بھی اس طرح کی جلد نہیں دیکھی۔‘‘  یہ کہنا تھا کہ سہل بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑے۔ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے جایا گیا اور عرض کیا گیا: سہل بے ہوش ہو کر گر گئے ہیں۔ آپ نے فرمایا: (مَنْ تَتَّہِمُوْنَ ٖ) ’’تم ان کے بارے میں کس کو مورد الزام ٹھہراتے ہو؟‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نے عرض کیا: عامر بن ربیعہ کو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«عَلَامَ يَقْتُلُ أَحَدُکُمْ أَخَاهُ إِذَا رَأَی أَحَدُکُمْ مِنْ أَخِيهِ مَا يُعْجِبُهُ فَلْيَدْعُ لَهُ بِالْبَرَکَة»(سنن ابن ماجه، الطب، باب العین، ح:۳۵۰۹ وسنن الکبری للنسائی: ۴/ ۳۸۱)

’’تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو قتل کرنے  کے درپے کیوں ہے؟ تم میں سے کوئی جب اپنے بھائی کی کوئی خوش کن بات دیکھے تو اس کے لیے برکت کی دعا کرے۔‘‘

 پھر آپﷺ نے پانی منگوایا اور عامر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ وضو کریں، تو انہوں نے اپنے چہرے اور دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک دھویا، دونوں گھٹنوں اور ازار کے اندر کے حصے کو دھویا اور پھر آپ نے حکم دیا کہ وہ پانی نظر لگے ہوئے شخص پر بہا دیں۔‘‘

ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: (وَاَمَرَہُ اَنْ یَّکْفَأَ الْاِنَائَ مِنْ خَلْفِه) ’’اور آپ نے عائن کو حکم دیا کہ وہ معین کے پیچھے کی طرف سے اس پر پانی کے اس برتن کو انڈیل دیں۔‘‘

واقعات سے بھی نظر بد لگنے کی شہادت ملتی ہے، بلاشبہ اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔

نظر بد لگنے کی حالت میں درج ذیل شرعی علاج استعمال میں لائے جا سکتے ہیں۔

۶۔           دم کرنا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

«لَا رُقْيَةَ اِلاَّ مِنْ عَيْنٍ اَوْ حُمَةٍ»(صحیح البخاري، الطب، باب من اکتوی او کوی غیرہ… ح:۵۷۰۵ وصحیح مسلم، الایمان، باب الدلیل علی دخول طوائف من المسلمین الجنة بغیر حساب ولا عذاب، ح:۲۲۰)

’’ جھاڑ پھونک یادم نظر لگنے یا بخار ہی کی وجہ سے ہے۔‘‘

جبرئیل علیہ السلام  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دم کرتے ہوئے یہ کلمات پڑھا کرتے تھے:

«بِاسْمِ اللّٰهِ اَرْقِيْکَ، مِنْ کُلَّ شَيْئٍ يُؤْذِيْکَ، مِنْ شَرِّ کُلِّ نَفْسٍ اَوْ عَيْنٍ حَاسِدٍ، اَللّٰهُ يَشْفِيْکَ، بِاسْمِ اللّٰهِ اَرْقِيْکَ»(صحیح مسلم، السلام، باب الطب والمرض والرقی، ح:۲۱۸۶)

’’اللہ کے نام کے ساتھ میں آپ کو دم کرتا ہوں، ہر اس چیز سے جو آپ کو تکلیف دے، اور ہر انسان کے یا حسد کرنے والی آنکھ کے شر سے، اللہ آپ کو شفا دے، میں اللہ کے نام کے ساتھ آپ کو دم کرتا ہوں۔‘‘

۲۔           دھونا: جیسا کہ سابقہ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا (کہ وہ خود کو دھوئیں) اور پھر اس پانی کو مریض پر انڈیل دیا جائے۔

نظر لگانے والے کے بول و براز کو مذکورہ مقصد کے لیے استعمال کرنے کی کوئی اصل نہیں ہے۔ اسی طرح اس کے پاؤں کی مٹی کو استعمال کرنا بھی بے اصل بات ہے، ثابت وہی ہے جس کا ذکر پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ اس کے اعضا اور ازار کے اندرون کو دھلایا جائے گا اور شاید اسی کی مثل اس کے رومال، ٹوپی اور قمیض وغیرہ کو بھی اندر سے دھلانا ہو۔ واللہ اعلم

نظر بد سے پیشگی حفاظت تدبیر اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں ایسا کرناتوکل کے منافی بھی نہیں بلکہ یہی عین توکل ہے، کیونکہ یہ تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ پر اعتماد کرنا اور ان اسباب کو اختیار کرنا ہے جن کو اس نے مباح قرار دیا یا جن کے استعمال کا اس نے حکم دیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسن وحسین رضی اللہ عنہ  کو ان کلمات کے ساتھ دم کیا کرتے تھے:

«أَعِيْذُکَمَا بِکَلِمَاتِ اللّٰهِ التَّامَّةِ مِنْ کُلِّ شَيْطَانٍ وَّهَامَّةٍ وَمِنْ کُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ»(صحیح البخاری، احادیث الانبیاء، باب ۱۰، ح: ۳۳۷۱ وسنن ابن ماجه، الطب، باب ما عوذ به النبیﷺ وما عوذ به، ح: ۳۵۲۵ ولفظها: اعوذ بکلمات اللہ… وسنن ابي داؤد، السنة، باب فی القرآن، ح:۴۷۳۷ وجامع الترمذی، الطب، باب کیف یعوذ الصبیان، ح:۲۰۶۰)

’’میں تم دونوں کو اللہ تعالیٰ کے کلمات تامہ کی پناہ میں دیتا ہوں، ہر شیطان اور زہریلی بلا کے ڈر سے اور ہر لگنے والی نظر بد کے شر سے۔‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام  بھی اسماعیل واسحاق علیہما السلام  کو اسی طرح دم کیا کرتے تھے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ126

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ