سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

بدعت حسنہ کی شرعی حیثیت

  • 9294
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 3065

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرا سوال ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر تم کہتے ہو کہ بدعت حسنہ بھی بدعت ہی ہے اور غلط ہے ، تو کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی بدعت کی تھی ٢٠ رکعت تراویح کی جماعت کروا کر،وہ کہتے ہیں کہ کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی بدعتی ہیں۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بدعت کی درج بالا تقسیم کے علاوہ کچھ حضرات نے بدعت کی یہ تقسیم بھی کی ہے کہ ایک بدعت حسنہ ہوتی ہے جس پرعمل جائز ہے اوردوسری بدعت سیئہ ہوتی ہے جس پر عمل جائز نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ یہ ایسی تقسیم ہے جس کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں بلکہ اس کے برعکس ایسے بہت سے دلائل موجود ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دین میں ہربدعت گمراہی ہے اور کوئی بھی بدعت حسنہ نہیں ہوتی۔ چنانچہ فرمان نبویﷺ ہے کہ :

’’ کُلُّ بِدْعَة ضَلَالة

‘‘ ’’ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘ [سنن أبوداؤد:۴۶۰۷]

حضرت ابن مسعود نے فرمایا ہے کہ

’’ اتبعوا ولاتبدعوا فقد کفیتم وکل بدعة ضلالة‘‘ [المعجم الکبیر للطبرانی:۹؍۱۵۴]

’’سنت کی اتباع کرو اور نئی چیزیں ایجاد نہ کرو، یقیناً تمہیں کفایت کی گئی ہے کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘

حضرت ابن عمر کا یہ قول بھی اس سلسلے میں ہے کہ

’’ کُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالةٌ وَإنْ رَآھَا النَّاسُ حَسَنَةً ‘‘ [تلخیص أحکام الجنائز للألبانی: ص۸۴]

’’ہر بدعت گمراہی ہے اگرچہ لوگ اسے اچھا ہی سمجھیں۔‘‘

امام شاطبی رحمہ اللہ[فتاویٰ الشاطبي :ص؍۱۸۰]اور حافظ ابن حجرؒ رحمہ اللہ[فتح الباري:۱۳؍۲۵۴]نے بھی یہی وضاحت فرمائی ہے کہ ’’ہر بدعت گمراہی ہے‘‘ کا مفہوم یہی ہے کہ کوئی بھی بدعت اچھی نہیں ہوتی ۔

شیخ صالح الفوزان فرماتے ہیں کہ جس نے بدعت کی یہ تقسیم کی ہے ’’بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ‘‘ اس کے پاس کوئی دلیل نہیں کیونکہ تمام بدعات سیئہ ہی ہوتی ہیں۔ [ظاھرۃ التبدیع:ص۴۲]

معلوم ہوا کہ بدعت کی یہ تقسیم باطل ہے۔

باقی رہا سیدنا عمر کا نماز تراویح کی جماعت کو ‘‘ نعم البدعة هذه’’ کہنا بدعتِ حسنہ نہیں بلکہ بدعتِ لغوی ہےکیونکہ باجماعت تراویح کی مثال نبی کریم سے ثابت ہے،اور جو چیز آپ سے ثابت ہو ،وہ بدعت نہیں ہو سکتی۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتوی کمیٹی

محدث فتوی


ماخذ:مستند کتب فتاویٰ