سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(55) شفاعت اور اس کی اقسام

  • 887
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 10251

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

شفاعت سے کیا مراد ہے اور اس کی کتنی اقسام ہیں۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

لغوی طور پر شفاعت: ’’شفع‘‘ سے ماخوذ ہے اور ’’وتر‘‘ کی ضد ہے اور اس کے معنی طاق کو جفت، یعنی ایک کو دو اور تین کو چار بنا دینے کے ہیں۔ اصطلاح میں اس کے معنی جلب منفعت یا دفع مضرت کے لیے کسی دوسرے کو واسطہ بنا لینے کے ہیں، یعنی شافع (سفارش کرنے والا) مشفوع الیہ (جس سے سفارش کی گئی ہو) کے درمیان مشفوع لہ کے لئے جلب منفعت یا اس کے لئے دفع مضرت خاطر واسطہ بنے۔ شفاعت کی درج ذیل دو قسمیں ہیں:

پہلی قسم:

 صحیح اور ثابت شدہ شفاعت: اس سے مراد وہ شفاعت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنت میں ثابت فرمایا ہے۔ یہ شفاعت اہل توحید واخلاص ہی کو نصیب ہوگی، کیونکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  نے جب عرض کیا: یا رسول اللہ! لوگوں میں آپ کی شفاعت سے محظوظ ہونے سب سے زیادہ سعادت حاصل کرنے والا کون شخص ہوگا؟ تو آپ نے فرمایا:

«مَنْ قَالَ لَا اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ خَالِصًا مِنْ قَلْبِهِ»(صحیح البخاری، العلم، باب الحرص علی الحديث، ح:۹۹)

’’جس شخص نے خلوص دل کے ساتھ"لا اله الا الله"  کہا۔‘‘

اس شفاعت کے لیے حسب ذیل تین شرطیں ہیں: (۱)اللہ تعالیٰ شافع سے راضی ہو۔ (۲)اللہ تعالیٰ مشفوع لہ سے بھی راضی ہو۔ (۳)اللہ تعالیٰ نے شافع کو شفاعت کی اجازت عطا فرما دی ہو۔ ان شرائط کا اجمال کے ساتھ باری تعالیٰ کے مندرجہ ذیل قول میں ذکر واردہواہے:

﴿وَكَم مِن مَلَكٍ فِى السَّمـوتِ لا تُغنى شَفـعَتُهُم شَيـًٔا إِلّا مِن بَعدِ أَن يَأذَنَ اللَّهُ لِمَن يَشاءُ وَيَرضى ﴿٢٦﴾... سورة النجم

’’اور آسمانوں میں بہت سے فرشتے ہیں جن کی سفارش کچھ بھی فائدہ نہیں دیتی مگر بعد ازاں کہ اللہ جس کے لیے چاہے اجازت بخشے اور (سفارش) پسند کرے۔‘‘

اور ان آیات میں انہیں مفصل بیان کیا گیا ہے:

﴿مَن ذَا الَّذى يَشفَعُ عِندَهُ إِلّا بِإِذنِهِ...﴿٢٥٥﴾... سورة البقرة

’’کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر (کسی کی) سفارش کر سکے؟‘‘

﴿ يَومَئِذٍ لا تَنفَعُ الشَّفـعَةُ إِلّا مَن أَذِنَ لَهُ الرَّحمـنُ وَرَضِىَ لَهُ قَولًا ﴿١٠٩﴾... سورة طه

’’اس روز (کسی کی) سفارش کچھ فائدہ نہ دے گی مگر اس شخص کی جسے اللہ اجازت دے گا اور اس کی بات کو پسند فرمائے گا۔‘‘

﴿وَلا يَشفَعونَ إِلّا لِمَنِ ارتَضى...﴿٢٨﴾... سورة الأنبياء

’’اور وہ (اس کے پاس کسی کی) سفارش نہیں کر سکتے مگر اس شخص کی جس سے اللہ خوش ہو۔‘‘

بہرحال شفاعت کے لیے ان تین شرائط کا پایا جانا ضروری ہے اور ہاں علمائے کرام علیہما السلام  نے یہاں پر یہ بھی ذکر فرمایا ہے کہ قرآن وحدیث سے ثابت شدہ شفاعت کی درج ذیل دو قسمیں ہیں:

۱۔ شفاعت عامہ:

 اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں میں سے جن کو چاہے گا اور جن کے لیے چاہے گاشفاعت کی اجازت عطا فرما ئے گا۔ یہ شفاعت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، دیگر انبیائے کرام، صدیقین، شہداء اور صالحین کے لیے ثابت ہے یہ لوگ جہنم میں جانے والے مومن گناہ گاروں کے لیے شفاعت کریں گے تاکہ انہیں جہنم سے نکال دیا جائے۔

۲۔ شفاعت خاصہ:

 اس سے مراد وہ شفاعت ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ساتھ خاص ہوگی۔ اور قیامت کے دن آپ کی طرف سے جو شفاعت ہوگی وہ شفاعت عظمیٰ ہے اور یہ اس وقت ہوگی جب لوگ ناقابل برداشت غم اور تکلیف سے دوچارہوں گے اس ہولناکی کے عالم میں وہ کسی ایسی شخصیت کی تلاش میں ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کی شفاعت کرے تاکہ انہیں حشر کے دن کی تکلیفوں اور مصیبتوں سے نجات مل جائے۔ اس مقصد کے لیے وہ حضرت آدم، پھر نوح، پھر ابراہیم، پھر موسیٰ اور پھر عیسیٰR کے پاس جائیں گے، مگر یہ تمام انبیائے کرام شفاعت سے انکار فرما دیں گے حتیٰ کہ یہ سب لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر شفاعت کے لیے عرض کریں گے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلماللہ تعالیٰ کے پاس شفاعت فرمائیں گے کہ وہ اپنے بندوں کو اس دن کی حشر سامانیوں سے نجات عطا فرما دے۔ تب اللہ تعالیٰ آپ کی دعا اور آپ کی شفاعت کو شرف قبولیت سے سرفراز فرما ئے گا بلاشبہ یہی وہ مقام محمود ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے آپ سے درج ذیل آیت کریمہ میں وعدہ فرمایا ہے:

﴿ وَمِنَ الَّيلِ فَتَهَجَّد بِهِ نافِلَةً لَكَ عَسى أَن يَبعَثَكَ رَبُّكَ مَقامًا مَحمودًا ﴿٧٩﴾... سورة الإسراء

’’اور بعض حصہ شب میں بھی آپ اس (قرآن کی تلاوت) کے ساتھ تہجد کی نماز پڑھا کریں یہ (شب خیزی اورآہ وسحر گاہی) تمہارے لیے زیادہ اجر و ثواب کا باعث ہے، قریب ہے کہ اللہ آپ کو مقام محمود میں کھڑا کرے گا۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو شفاعت خاصہ حاصل ہوگی، اس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ آپ اہل جنت کی جنت میں داخل ہونے کے لیے شفاعت فرمائیں گے۔ اہل جنت جب پل صراط کو عبور کریں گے تو انہیں جنت اور جہنم کے درمیان ایک پل پر کھڑا کر دیا جائے گا اس موقعہ سے ان سب کے دلوں کو ایک دوسرے کے بارے میں منفی جذبات سے بالکل پاک صاف کر دیا جائے گا، پھر انہیں جنت میں داخلے کی اجازت ملے گی اس وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلمکی شفاعت سے جنت کے دروازوں کو کھولا جائے گا۔

دوسری قسم:

 شفاعت باطلہ ہے جو کسی کے کچھ کام نہ آئے گی۔ اس سے مراد مشرکین کی مزعومہ شفاعت ہے وہ جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے معبود اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کی شفاعت کریں گے۔ یہ وہ شفاعت ہے جو ان کے کچھ بھی کام نہ آئے گی، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿فَما تَنفَعُهُم شَفـعَةُ الشّـفِعينَ ﴿٤٨﴾... سورة المدثر

’’تو (اس حال میں) سفارش کرنے والوں کی سفارش ان کے حق میں کچھ فائدہ نہ دے گی۔‘‘

کیونکہ اللہ تعالیٰ ان مشرکین کے شرک سے خوش نہیں ہے اور نہ یہ ممکن ہے کہ وہ مشرکین کے لیے شفاعت کی کسی کو اجازت دے، کیونکہ وہ تو اپنے پسندیدہ بندوں کے لیے شفاعت کی اجازت عطا فرمائے گا اور وہ اپنے بندوں کے لیے کفر اور فساد کو پسند ہی نہیں فرماتا، لہٰذا مشرکین کا اپنے معبودوں سے یہ تعلق قائم کرنا کہ:

﴿هـؤُلاءِ شُفَعـؤُنا عِندَ اللَّهِ...﴿١٨﴾... سورة يونس

’’یہ اللہ کے پاس ہماری سفارش کرنے والے ہیں۔‘‘

یہ ایک باطل اور غیر نفع بخش تعلق ہے۔ یہ تعلق انہیں اللہ تعالیٰ سے دورسے دور تک کرتا چلا جاتا ہے کیونکہ مشرکین بتوں کی عبادت کے لیے باطل وسیلے کے ذریعے سے اپنے بتوں سے شفاعت کی امید رکھتے ہیں، اور یہ ان کی بے وقوفی اور حماقت ہے کہ تقرب الٰہی کے حصول کے لیے وہ ایک ایسا وسیلہ اختیار کرتے ہیں جو انہیں اللہ تعالیٰ سے مزید دور کر تا چلا جاتا ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

 

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ110

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ