سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(7) سیرت طیبہ کا دامن مضبوطی سے تھا منا اعتدال اور اس سے تجاوز غلو ہے

  • 884
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 1828

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

دین میں اعتدال سے کیا مراد ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

دین میں اعتدال سے مراد یہ ہے کہ انسان کو نہ تو اس قدر غلو سے کام لینا چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود سے بھی آگے بڑھ جائے اور نہ اس میں اس قدر کوتاہی ہونی چاہیے کہ وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود میں پامالی پر اتاروہوجائے۔

دین میں راہ اعتدال یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے دامن کو مضبوطی سے تھام لیا جائے، اور غلو یہ ہے کہ اس سے تجاوز کیا جائے اور کوتاہی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت تک پہنچا ہی نہ جائے۔ اس کی مثال یہ ہے جیسے ایک شخص کہے کہ میں رات کے قیام کا ارادہ رکھتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ ساری زندگی نہ سوؤں کیونکہ نماز تمام عبادات سے افضل ہے، لہٰذا میری خواہش یہ ہے کہ میں ساری ساری رات بیدار رہاکروں تو یہ شخص اللہ تعالیٰ کے دین میں غلو بازی کرنے والا ہے اور ایسا شخص اپنے موقف کے اعتبارسے حق پر نہیں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ہوبہو یہی واقعہ پیش آچکاہے کہ کچھ لوگ جمع ہوئے اور ان میں سے ایک نے کہا کہ میں رات بھر قیام کروں گا اور کبھی نہیں سوؤں گا، دوسرے نے کہا میں ساری زندگی روزے رکھتا رہوں گا اور کبھی بھی روزہ نہیں چھوڑوں گا اور تیسرے نے کہا کہ میں عورتوں سے شادی نہیں کروں گا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ بات پہنچی تو آپ نے فرمایا:

«مَا بَالُ اَقْوَامٍ يقولون کَذَا وَکَذَا؟ أناَاَصُومُ وَاُفْطِرُ، وأقوم وأنام، وَاَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَيْسَ مِنِّیْ»! (صحيح بخاری،کتاب الأدب باب من لم يواجه الناس بالعتاب(۶۱۰۱) صحيح مسلم، النکاح، باب استحباب النکاح لمن تاقت نفسه اليه… ح: ۱۴۰۱۔)

’’ان لوگوں کو کیا ہواگیاہے، جنہوں نے یہ یہ باتیں کی ہیں؟ میں تو نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، روزہ رکھتا ہوں اور چھوڑ بھی دیتا ہوں اور عورتوں سے شادی بیاہ بھی کرتا ہوں، چنانچہ جس شخص نے میری سنت سے منہ موڑا وہ مجھ سے نہیں ہے۔‘‘

اورایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا:

((أَنْتُمُ الَّذِينَ قُلْتُمْ كَذَا وَكَذَا، أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَخْشَاكُمْ لِلَّهِ وَأَتْقَاكُمْ لَهُ، لَكِنِّي أَصُومُ وَأُفْطِرُ، وَأُصَلِّي وَأَرْقُدُ، وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي)) (صحيح البخاری، النکاح ،باب الترغیب فی النکاح، ح: 5063)

ان لوگوں نے دین میں غلو سے کام لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے براء ت کا اظہار فرما دیا، کیونکہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے منہ موڑا تھا، جب کہ سنت یہ ہے کہ روزہ رکھا بھی جائے اور چھوڑ بھی دیا جائے، رات کو قیام بھی کیا جائے اور آرام بھی اور عورتوں سے نکاح بھی کیا جائے۔ کوتاہی وہ شخص کرتا ہے جو یہ کہے کہ مجھے نفل عبادت کی ضرورت نہیں، لہٰذا میں نفل ادا نہیں کروں گا، میں صرف فرض ہی ادا کیا کروں گا، ایسا شخص بسا اوقات فرائض میں بھی کوتاہی کرنے لگتا ہے۔ معتدل وہ ہے جو اس طریقے پر چلے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفائے راشدین کا طریقہ تھا۔

دوسری مثال ملاحظہ فرمائیں: تین اشخاص کے سامنے ایک فاسق آدمی حاضرہوا ، تو ان میں سے ایک شخص کہتا ہے کہ میں اس فاسق آدمی کو سلام نہیں کروں گا، اسے چھوڑ دوں گا، اس سے دور ہو جاؤں گا اور اس سے کلام نہیں کروں گا۔ دوسرا شخص کہتا ہے کہ میں اس فاسق کے ساتھ چلوں گا، اسے سلام کروں گا، اس سے خندہ پیشانی سے پیش آوں اپنے ہاں اسے مدعو کروں گا اور خود بھی اس کی دعوت کو قبول

کروں گاکیونکہ میرے نزدیک یہ شخص ہوبہوایک نیک آدمی ہی کی طرح ہے اور تیسرا شخص کہتا ہے کہ میں اس فاسق آدمی کو اس کے فسق کی وجہ سے ناپسند اور اس کے ایمان کی وجہ سے پسند کرتا ہوں اور اس سے کنارہ کشی اختیار نہیں کروں گا سوائے اس کے کہ کنارہ کشی اس کی اصلاح کا سبب ہو اور اگر کنارہ کشی اس کی اصلاح کا سبب نہ بنے بلکہ اس کے فسق میں اضافے کا سبب بن جائے تو میں اس سے کنارہ کشی نہیں کروں گا۔ ان تین اشخاص کے بارے میں ہم یہ کہیں گے کہ ان میں سے پہلے شخص کا عمل افراط اور غلو پر مبنی ہے، دوسرے کا تفریط اور کمی پر جب کہ تیسرے کا عمل معتدل ہے۔ اسی طرح تمام عبادات ومعاملات میں بھی لوگوں کا یہی حال ہے کہ ان میں سے بعض کوتاہ ہیں، بعض غالی اور بعض معتدل۔

تیسری مثال ملاحظہ فرمائیں: ایک شخص اپنی بیوی کا اسیر ’’زن مرید‘‘ ہے، وہ جس طرف چاہے اس کے منہ کو پھیر دیتی ہے اور وہ اسے گناہ سے روکتا ہے نہ کسی اچھے کام کی ترغیب دیتا ہے بلکہ عورت اس کی عقل پر سوار اور اس پر حاکم بن بیٹھی ہے۔ دوسرا شخص اپنی بیوی کے ساتھ تکبر وغرور کا معاملہ کرتا، اسے پر کاہ کی حیثیت نہیں دیتا بلکہ اسے اپنے گھریلو ملازم سے بھی کم تر سمجھتا ہے اور تیسرے شخص کا طرز عمل معتدل ہے، وہ اس کے ساتھ اسی طرح کا معاملہ کرتا ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے:

﴿وَلَهُنَّ مِثلُ الَّذى عَلَيهِنَّ بِالمَعروفِ... ﴿٢٢٨﴾... سورة البقرة

’’اور عورتوں کا حق (مردوں پر) ویسا ہی ہے جیسے دستور کے مطابق (مردوں کا حق) عورتوں پر ہے۔‘‘

اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

«لَا يَفْرَکْ مُؤْمِنٌ مُّؤْمِنَةً اِنْ کَرِهَ مِنْهَا خُلْقًا رَضِیَ مِنْهَا آخَرَ» (صحيح مسلم، الرضاع، باب الوصية بالنساء، ح: ۱۴۶۷)

’’کوئی مومن مرد اپنی مومن بیوی سے بغض نہ رکھے، اگر اس کی کوئی عادت اسے ناپسند ہوگی تو کوئی دوسری عادت پسند بھی ہوگی۔‘‘

ان تینوں میں سے یہ آخری شخص معتدل ہے، پہلا اپنی بیوی کے بارے میں غالی ہے اور دوسرا کوتاہ۔ دیگر تمام اعمال وعبادات کو بھی اسی پر قیاس کر لیجئے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ38

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ