سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(26) طلسماتی تعویذ اور گنڈے بدعت اور حرام ہیں

  • 870
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 2032

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تعویذوگنڈے وغیرہ لٹکانے کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

تعویذات وگنڈے وغیرہ کو لٹکانے کامسئلہ دو قسموں میں منقسم ہے :

پہلی قسم:

 یہ کہ تعویذ قرآن مجید کے الفاظ پر مشتمل ہو، اس مسئلے میں سلف وخلف اہل علم کا اختلاف ہے، بعض نے اسے جائز قرار دیتے ہوئے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ یہ حکم درج ذیل ارشاد باری تعالیٰ میں داخل ہے:

﴿وَنُنَزِّلُ مِنَ القُرءانِ ما هُوَ شِفاءٌ وَرَحمَةٌ لِلمُؤمِنينَ...﴿٨٢﴾... سورة الإسراء

’’اور ہم قرآن (کے ذریعے) سے وہ چیز نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لیے شفا اور رحمت ہے۔‘‘

نیز اس ارشاد باری تعالیٰ میں اس کا شمار ہے:

﴿كِتـبٌ أَنزَلنـهُ إِلَيكَ مُبـرَكٌ...﴿٢٩﴾... سورة ص

’’(یہ) کتاب جو ہم نے تم پر نازل کی ہے با برکت ہے۔‘‘

اور اس کی برکت کے مظاہر میں سے یہ بھی ہے کہ اسے تعویذ بنا کر لٹکا دیا جائے تاکہ اس کے تأثیر کی وجہ سے تکلیف کو دور کیا جا سکے۔

بعض اہل علم نے اسے ممنوع قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں کہ آپ نے اس کو سبب شرعی قرار دیا ہو جس کا سہارا لے کر تکلیف کو دور کئے جانے یا اسے رفع دفع کرنے کاجواز فراہم ہو۔ اس طرح کی اشیاء میں اصل حکم توقیف ہے اور ان دونوں اقوال میں سے یہی قول راجح ہے کہ تعویذات لٹکانا جائز نہیں، خواہ ان میں قرآن کریم کے الفاظ ہی کیوں نہ لکھے گئے ہوں۔ اس طرح کے تعویذات کو مریض کے تکیے کے نیچے رکھنے کابھی جواز نہیں ہے اور ان کودیواروں وغیرہ پر لٹکانا بھی جائز نہیں، البتہ یہ ثابت ہے کہ مریض کے لیے دعا کی جائے اور آیات کریمہ کو پڑھ کر اسے دم کیا جائے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے۔

دوسری قسم:

 اگر تعویذات کے الفاظ قرآن کریم سے تو نہ ہوں بلکہ وہ ایسے الفاظ ہوں، جن کا معنی و مفہوم واضح نہ ہو تو اس طرح کے تعویذات کا کسی صورت بھی استعمال کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ معلوم ہی نہیں کہ ان میں کیا لکھا ہوا ہے۔ اس سلسلے میں بعض لوگ طلسمات، گرہ لگائی گئی اشیاء اور ایک دوسرے میں داخل کر کے اس طرح حروف لکھتے ہیں کہ نہ انہیں پڑھا جا سکتا اور نہ سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ اور اس قسم کا تعامل بدعت اور حرام ہے اور قطعاً کسی صورت میں بھی اس کا جواز نہیں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

 

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ68

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ