سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(385) رمضان میں عمرہ اور اسی سال حج۔۔۔

  • 8932
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-23
  • مشاہدات : 1172

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

فضیلۃ الشیخ! اس شخص کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں جو رمضان المبارک میں عمرہ ادا کرے اور پھر اسی سال اس کا حج کا بھی ارادہ ہو تو کیا اس کے لیے فدیہ لازم ہے؟ نیز یہ فرمائیں کہ حج کی کون سی قسم افضل ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جس شخص نے رمضان میں عمرہ کیا اور پھر اسی سال حج مفرد کا احرام باندھ لیا تو اس پر کوئی فدیہ نہیں کیونکہ فدیہ تو اس شخص کے لیے لازم ہے جو حج کے وقت تک عمرہ سے فائدہ اٹھائے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿فَمَن تَمَتَّعَ بِالعُمرَ‌ةِ إِلَى الحَجِّ فَمَا استَيسَرَ‌ مِنَ الهَدىِ...١٩٦﴾... سورة البقرة

’’تو جو (تم میں سے) حج کے وقت تک عمرے سے فائدہ اٹھانا چاہے تو وہ جیسی قربانی میسر ہو کرے۔‘‘

اور جو شخص رمضان میں عمرہ کرے اور پھر حج کے مہینوں میں احرام باندھ لے تو اسے متمتع (فائدہ اٹھانے والا) نہیں کہتے بلکہ متمتع تو وہ شخص ہوتا ہے جو حج کے مہینوں یعنی شوال، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ کے ابتدائی عشرہ میں عمرہ کا احرام باندھے اور پھر اسی سال حج بھی کرے یا حج اور عمرہ کو ملا دے تو اسے متمتع کہتے ہیں اور اس پر فدیہ لازم ہے۔ حج کا ارادہ کرنے والے کے لیے افضل یہ ہے کہ وہ حج کے ساتھ عمرہ کرے یعنی فواط اور سعی کر کے بال کتروا دے اور حلال ہو جائے اور پھر اسی سال حج کا احرام باندھے۔ اور افضل یہ ہے کہ حج کا احرام آٹھ ذوالحج کو باندھے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو حجۃ الوداع کے موقع پر اس کا حکم دیا تھا۔[1]

حج تمتع کرنے والے کے لیے لازم ہے کہ وہ حج کے لیے بھی اسی طرح طواف اور سعی کرے جس طرح اس نے عمرہ کے لیے طواف و سعی کیا تھا، اکثر اہل علم کے نزدیک عمرہ کی سعی حج کی سعی سے کفایت نہیں کرے گی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث کی دلالت سے یہی با ت درست ہے۔


[1] صحیح مسلم، باب حجة النبی صلی اللہ علیه وسلم، حدیث: 1218

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب المناسک: ج 2 صفحہ 280

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ