سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(334) جس عورت کے ساتھ محرم نہ ہو اس پر حج واجب نہیں

  • 8881
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1029

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سباء کی ایک عورت جو نیکی اور تقویٰ میں مشہور ہے وہ ادھیڑ عمر کی ہے بلکہ بڑھاپے کی طرف مائل ہے۔ وہ فرض حج کرنا چاہتی ہے لیکن اس کے ساتھ کوئی محرم نہیں ہے، ہاں البتہ معززین شہر میں سے ایک شخص جو نیکی و تقویٰ میں مشہور ہے اور اس کے ہمراہ محرم عورتیں بھی ہیں تو کیا اس عورت کے لیے یہ صحیح ہے کہ اس آدمی کے ہمراہ عورتوں کے ساتھ مل کر حج کرے جبکہ آدمی اس کی نگہداشت کرے گا؟ یا اس عورت سے فریضہ حج ساقط ہو جائے گا کیونکہ اسے اگرچہ مالی استطاعت تو ہے لیکن اس کے ساتھ محرم نہیں ہے؟ براہ کرم اس مسئلہ میں ہمیں فتویٰ دیجئے کیونکہ ہمارا بعض بھائیوں کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

وہ عورت جس کے ساتھ محرم نہ ہو، اس پر حج واجب نہیں ہے کیونکہ عورت کے لیے محرم بمنزلہ سبیل کے ہے اور استطاعت سبیل وجوب حج کے لیے شرط ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

﴿وَلِلَّهِ عَلَى النّاسِ حِجُّ البَيتِ مَنِ استَطاعَ إِلَيهِ سَبيلًا...٩٧﴾... سورة آل عمران

’’اور لوگوں پر اللہ کا حق (یعنی فرض) ہے کہ جو اس گھر تک جانے کا مقدور رکھے وہ اس کا حج کرے۔‘‘

اس عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ حج یا کسی اور مقصد کے لیے اپنے شوہر یا محرم کے بغیر سفر کرے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

(لا يحل لامراة تومن بالله واليوم آخر‘ تسافر مسيرة يوم وليلة‘ الا مع ذي محرم عليها) (صحيح البخاري‘ التقصير‘ باب في كم يقصر الصلاة‘ ح: 1088 وصحيح مسلم‘ الحج‘ باب سفر المراة مع محرم...الخ‘ ح: 1339)

’’اللہ تعالیٰ اور روز آخرت پر ایمان رکھنے والی کسی عورت کے لیے یہ حلال نہیں کہ وہ ایک دن اور رات کا سفر محرم کے بغیر کرے۔‘‘

بخاری و مسلم میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا:

(لا يخلون رجل بامراة الا ومعها ذو محرم‘ ولا تسافر المراة الا مع ذي محرم)

’’کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ خلوت اختیار نہ کرے الا یہ کہ اس کا محرم اس کے ساتھ ہو اور نہ کوئی عورت محرم کے بغیر سفر کرے۔‘‘ یہ ارشاد سن کر ایک آدمی نے کھڑے ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) میری بیوی حج کے لیے جا رہی ہے اور میرا نام فلاں فلاں غزوہ کے لیے لکھا جا چکا ہے تو آپ نے فرمایا:

(انطلق فحج مع امراتك) (صحيح البخاري‘ النكاح‘ باب لا يخلون رجل بامراة...الخ‘ ح: 5233‘ وجزاء الصيد‘ باب حج النساء‘ ح: 1862 وصحيح مسلم‘ الحج‘ باب سفر المراة مع محرم...الخ‘ ح: 1341)

’’تم جاؤ اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔‘‘

امام حسن بصری، نخعی، احمد، اسحاق، ابن منذر اور اصحاب الرائے کا بھی یہی قول ہے اور عموم احادیث کے موافق ہونے کی وجہ سے یہی قول صحیح ہے کہ عورت کے لیے شوہر اور محرم کے بغیر سفر کرنا منع ہے۔ امام مالک، شافعی اور اوزاعی رحمۃ اللہ علیھم کا قول اس کے خلاف ہے کہ انہوں نے ایسی شرط ذکر کی ہے جس کی کوئی دلیل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ابن منذر فرماتے ہیں انہوں نے ظاہر حدیث کے مطابق قول کو ترک کر دیا ہے اور ان میں سے ہر ایک نے ایک ایسی شرط ذکر کی ہے جس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب المناسک : ج 2  صفحہ 250

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ