سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(290) تراویح میں لمبی قراءت

  • 8834
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1073

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک مسجد کے امام نماز تراویح پڑھاتے ہوئے ہر رکعت میں قرآن مجید کا ایک پورا صفحہ یعنی قریبا پندرہ آیات تلاوت کرتے ہیں جس کی وجہ سے بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ بہت لمبی قراءت ہے جب کہ بعض کی رائے اس کے برعکس ہے۔ سوال یہ ہے کہ نماز تراویح میں سنت کیا ہے؟ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ایسی حد منقول ہے جس سے طوالت و عدم طوالت کو معلوم کیا جا سکے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان و غیر رمضان میں رات کو گیارہ رکعات پڑھا کرتے تھے[1] اور قراءت اور ارکان کو آپ بہت طول دیتے حتیٰ کہ ایک بار تو آپ نے ایک رکعت میں پانچ پاروں سے بھی زیادہ کی تلاوت فرمائی اور پھر نہایت ترتیل اور سکون کے ساتھ یہ تلاوت فرمائی اور یہ بھی صحیح حدیث سے ثابت ہے[2] کہ آپ نصف رات کے وقت یا تھوڑا سا نصف سے پہلے یا بعد میں اٹھتے اور طلوع فجر کے قریب تک نماز میں مصروف رہتے اور اس طرح قریبا پانچ گھنٹوں میں کل تیرہ رکعات ادا فرماتے، جس کے معنی یہ ہیں کہ آپ کی قراءت اور ارکان بہت طویل ہوتے تھے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو نماز تراویح با جماعت ادا کرنے کا حکمدیا تو وہ بیس رکعتیں پڑھا کرتے تھے اور ہر رکعت میں سورت بقرہ کی تیس آیات کے قریب یعنی چار پانچ صفوں کے بقدر تلاوت کرتے تھے اور اس طرح آٹھ رکعتوں میں وہ سورہ بقرہ پڑھ لیا کرتے تھے اور اگر وہ بارہ رکعتوں میں سورہ بقرہ ختم کرتے تھے تو اس قراءت کو وہ تخفیف پر محمول کرتے تھے۔ تو یہ ہے نماز تراویح کے بارے میں سنے کہ اگر قراءت میں تخفیف ہو تو رکعات کی تعداد میں اضافہ کر دیا جائے حتیٰ کہ بعض ائمہ کے بقول اکتالیس تک رکعات پڑھی جا سکتی ہیں اور اگر کوئی شخص گیارہ یا تیرہ رکعات پر اکتفاء کرے تو قراءت اور ارکان کی طوالت میں اضافہ کر دے۔ نماز تراویح کی تعداد متعین نہیں ہے بلکہ مطلوب و مقصود یہ ہے کہ اسے نہایت اطمینان و سکون کے ساتھ ادا کیا جائے اور کم از کم ایک گھنٹہ تو اس نماز پر ضرور صرف کیا جائے۔ جو شخص اس قدر قیام کو طویل سمجھتا ہے تو خلاف منقول ہونے کی وجہ سے اس کی یہ بات ناقابل التفات ہے۔

 


[1] صحیح بخاري، التھجد، باب قیام النبی صلی اللہ علیہ وسلم باللیل فی رمضان، حدیث: 1147 و صحیح مسلم، صلاة المسافرین، باب صلاة اللیل و عدد رکعات النبی صلی اللہ علیہ وسلم،...الخ، حدیث: 738

[2] صحیح بخاري، الوتر، باب ساعات والوتر، حدیث: 996 وصحیح مسلم، صلاة المسافرین، باب صلاة اللیل و عدد رکعات النبی صلی اللہ علیہ وسلم، حدیث: 745

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب الصيام: ج 2  صفحہ 216

محدث فتوی

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ