سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(271) نفلی روزے رمضان کی قضا نہیں بن سکتے

  • 8815
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1233

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں بیمار ہو گئی اور مرض جب شدت اختیار کر گیا تو میرے بھائی نے مجھے مکہ مکرمہ ہسپتال میں داخل کرا دیا۔ ہسپتال میں داخلہ کے دوران دو بار رمضان آیا اور پھر اس کے بعد مجھے ریاض منتقل کر دیا گیا اور میں وہاں دوبارہ پھر ہسپتال میں داخل ہو گئی اور جب پھر رمضان آ گیا تو میں پہلے سے بہتر تھی، لہذا میں نے روزے رکھ لیے۔ کیا روزے رکھنا میرے لیے لازم ہے جبکہ میں ہر ماہ تین روزے رکھتی ہوں؟ یا میرے لیے صدقہ کرنا لازم ہے؟ کیا میں اپنے اکلوتے بیٹے سے کہوں کہ وہ صدقہ کر لے جب کہ وہ تنگدست ہے، ملازمت بھی نہیں کرتا اور ایک کرایہ کے مکان میں رہتا ہے اور میں ایک کمزور حالت والی عورت ہوں۔ میں کوئی کام کر کے صدقہ کرنے کی استطاعت بھی نہیں رکھتی۔ لہذا اس مسئلہ کا کیا حال ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سائلہ پر مذکورہ دو مہینوں کی قضا واجب ہے کیونکہ (درج ذیل) ارشاد باری تعالیٰ کے عموم کا یہی تقاضا ہے:

﴿وَمَن كانَ مَر‌يضًا أَو عَلىٰ سَفَرٍ‌ فَعِدَّةٌ مِن أَيّامٍ أُخَرَ‌...١٨٥﴾... سورة البقرة

’’تو جو شخص تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں روزوں کی گنتی کو پورا کر لے۔‘‘

سائلہ نے جو یہ ذکر کیا ہے کہ وہ ہر مہینے تین روزے رکھتی ہے، اگر ان روزوں کے رکھنے سے سائلہ کی نیت مذخورہ دو مہینوں کے روزوں کی قضا دینا ہے تو نیت صحیح ہے، لۃذا اسے باقی روزے بھی رکھ لینے چاہئیں اور اگر ان تین روزوں کے بارے میں اس کی نیت نفل روزوں کی تھی تو اس سے فرض ساقط نہیں ہوں گے اور اسے مکمل دو ماہ کے روزے رکھنا ہوں گے۔ روزوں کے بجائے مسکینوں کو کھانا کھلانا اس کے لیے واجب نہیں ہے کیونکہ یہ معذور تھی اور بیماری کی وجہ سے اس نے روزے مؤخر کئے ہیں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب الصیام : ج 2  صفحہ 206

محدث فتویٰ

 

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ