سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(255) سفر میں روزے

  • 8799
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 927

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جیسا کہ آنجناب کے علم میں ہے کہ آج کل بحمداللہ اسباب و وسائل سفر بہت آرام دہ ہیں جن کی وجہ سے مسافر کو روزے سے کوئی تکلیف نہیں ہوتی تو کیا مسافر کے لیے روزہ رکھنا افضل ہے یا روزہ نہ رکھنا افضل ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسافر کو روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کا اختیار ہے۔ ادلہ شرعیہ سے بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ مسافر کے لیے افضل یہ ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے، خصوصا جب کہ روزہ رکھنے میں مشقت بھی ہو کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

(ليس من البر الصوم في السفر) (صحيح البخاري‘ الصوم‘ باب قول النبي صلي الله عليه وسلم لمن ظلل عليه...الخ‘ ح:1946)

’’سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے۔‘‘

نیز آپ نے فرمایا:

(ان الله يحب ان توتي رخصه كما يكره ان توتي معصيته) (مسند احمد: 108/2)

’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کی عطا کردہ رخصتوں کو قبول کر لیا جائے جس طرح وہ اس بات کو نا پسند کرتا ہے کہ اس کی معصیت و نافرمانی کا ارتکاب کیا جائے۔‘‘

اگر روزہ رکھنے میں کوئی تکلیف نہ ہو اور کوئی روزہ رکھ لے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں اور اگر تکلیف ہو تو پھر روزہ رکھنا مکروہ ہے۔

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے رمضان المبارک کے دوسرے جمعہ کے خطبہ میں خطیب سے سنا کہ اس مزدور کے لیے روزہ چھوڑ دینا جائز ہے جسے کام کی وجہ سے بہت محنت مشقت اٹھانا پڑتی ہو اور اس کام کے علاوہ وہ کوئی اور کام بھی نہ کر سکتا ہو تو وہ رمضان کے ہر دن کے عوض ایک مسکین کو کھانا دے دے جس کی قیمت انہوں نے پندرہ درہم بیان کی۔ کیا اس فتویٰ کی کتاب و سنت سے کوئی صحیح دلیل ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مزدور کے لیے محض کام کاج کی وجہ سے روزہ چھوڑ دینا جائز نہیں ہے۔ ہاں البتہ اگر اس کام کی وجہ سے اسے بہت ہی زیادہ مسقت اٹھانا پڑتی ہو جس کی وجہ وہ دن کے وقت روزہ افطار کر دینے کے لیے مجبور و مضطر ہو جائے تو وہ اس مشقت کے ازالہ کے لیے روزہ توڑ دے اور پھر غروب آفتاب تک کچھ نہ کھائے پیے اور پھر لوگوں کے ساتھ افطار کرے اور اس دن کے روزہ کی بعد میں قجا دے لے اور آپ نے جو فتویٰ ذکر کیا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب الصیام : ج 2  صفحہ 199

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ