سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(253+253) کیا مجاہدین روزہ چھوڑ دیں؟

  • 8797
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 990

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

وہ لوگ جو دشمن سے جنگ کر رہے ہوں کیا ان کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ رمضان میں روزے نہ رکھیں اور پھر بعد میں ان کی قضا دے لیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب کافروں سے جنگ کرنے والے مسلمان مسافر ہوں کہ ان کے لیے نماز قصر کرنا جائز ہو تو پھر ان کے لیے یہ بھی جائز ہے کہ وہ رمضان میں روزے نہ رکھیں اور رمضان کے بعد ان کی قضا دے لیں اور اگر وہ مسافر نہ ہوں بایں طور کہ دشمن نے ان کے شہروں پر حملہ کر دیا ہو تو اس صورت میں جہاد کے ساتھ ساتھ جس شخص کو روزہ رکھنے کی بھی استطاعت ہو تو اس کے لیے روزہ رکھنا واجب ہے اور جو شخص روزے اور جہاد۔۔۔جب یہ فرض عین ہو۔۔۔ دونوں سے بیک وقت عہدہ بر آ ہونے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اس کے لیے یہ جائز ہے کہ روزے نہ رکھے اور رمضان کے بعد اتنے دنوں کے روزوں کی قضا دے جتنے دن اس نے روزے نہیں رکھے۔

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے رمضان المبارک کے دوسرے جمعہ کے خطبہ میں خطیب سے سنا کہ اس مزدور کے لیے روزہ چھوڑ دینا جائز ہے جسے کام کی وجہ سے بہت محنت مشقت اٹھانا پڑتی ہو اور اس کام کے علاوہ وہ کوئی اور کام بھی نہ کر سکتا ہو تو وہ رمضان کے ہر دن کے عوض ایک مسکین کو کھانا دے دے جس کی قیمت انہوں نے پندرہ درہم بیان کی۔ کیا اس فتویٰ کی کتاب و سنت سے کوئی صحیح دلیل ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مزدور کے لیے محض کام کاج کی وجہ سے روزہ چھوڑ دینا جائز نہیں ہے۔ ہاں البتہ اگر اس کام کی وجہ سے اسے بہت ہی زیادہ مسقت اٹھانا پڑتی ہو جس کی وجہ وہ دن کے وقت روزہ افطار کر دینے کے لیے مجبور و مضطر ہو جائے تو وہ اس مشقت کے ازالہ کے لیے روزہ توڑ دے اور پھر غروب آفتاب تک کچھ نہ کھائے پیے اور پھر لوگوں کے ساتھ افطار کرے اور اس دن کے روزہ کی بعد میں قجا دے لے اور آپ نے جو فتویٰ ذکر کیا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب الصیام : ج 2  صفحہ 197

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ