سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(248) مریض کے لیے روزہ چھوڑنا جائز ہے

  • 8791
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-27
  • مشاہدات : 943

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میری عمر سولہ سال ہے، میں بیمار ہوں اور گزشتہ پانچ سالوں سے ہسپتال میں زیر علاج ہوں، گزشتہ سال مال رمضان میں ڈاکٹر نے میرے لیے ورید میں کیمیائی علاج تجویز کیا جب کہ میں نے روزہ رکھا ہوا تھا۔ یہ علاج بہت قوی اور معدہ اور تمام جسم پر بہت اثر انداز ہوا تھا، جس دن میں نے علاج شروع کیا اس دن (اس کی وجہ سے) مجھے بہت سخت بھول لگ گئی حالانکہ فجر کے بعد اب تک صرف سات گھنٹے گزرے تھے اور عصر کے وقت تک تو میری تکلیف اور بھوک اس قدر بڑھ گئی کہ میں مرنے کے قریب ہو گیا لیکن میں نے اذان مغرب سے پہلے روزہ افطار نہ کیا ان شاءاللہ اس رمضان میں بھی ڈاکٹر میرا اسی طرح علاج کرے گا تو کیا میں اس دن روزہ رکھوں یا نہ رکھوں؟ اور اگر نہ رکھوں تو کیا اس روزے کی قضا دینا ہو گی؟ کیا ورید سے خون لینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں؟ کیا ؐذکورہ بالا علاج سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مریض کے لیے شریعت میں یہ رخصت ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے بشرطیکہ روزہ اس کے لیے نقصان دہ ہو یا اسے برداشت کرنا مشکل ہو یا علاج کے لیے دن کے وقت اسے گولیاںِ سیرت یا دیگر دوائیاں استعمال کرنے کی ضرورت ہو، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿فَمَن كانَ مِنكُم مَر‌يضًا أَو عَلىٰ سَفَرٍ‌ فَعِدَّةٌ مِن أَيّامٍ أُخَرَ‌...١٨٤﴾... سورة البقرة

’’جو شخص تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں روزوں کی گنتی پوری کرے۔‘‘

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(ان الله يحب ان توتي رخصه كما يكره ان توتي معصية) (مسند احمد: 108/2)

’’اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند فرماتا ہے کہ اس کی عطا کردہ رخصتوں کو اختیار کر لیا جائے جس طرح وہ اس بات کو ناپسند کرتا ہے کہ اس کی معصیت و نافرمانی کے کاموں کو اختیار کیا جائے۔‘‘

ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:

(كما يحب ان توتي عزائمه) (صحيح ابن حبان‘ ح: 913‘914)

’’جس طرح وہ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کے مقرر کردہ فرائض کی بجا آوری کی جائے۔‘‘

کیمیائی تجزیہ وغیرہ کے لیے ورید سے خون لینے کے بارے میں صحیح بات یہ ہے کہ اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا اور اگر خون زیادہ مقدار میں لینا مقصود ہو تو پھر بہتر یہ ہے کہ دن کے بجائے رات کے وقت لے لیا جائے اور اگر زیادہ مقدار میں خون دن کے وقت لیا گیا ہو تو پھر زیادہ احتیاط اس میں ہے کہ اس روزے کی قضا دے لی جائے کیونکہ یہ عمل سینگی سے مشابہت رکھتا ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب الصیام : ج 2  صفحہ 193

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ