سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(180) صدقہ فطر نقدی کی صورت میں ادا کرنا

  • 8719
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1781

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

صدقہ فطر نقدی کی صورت میں ادا کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے کیونکہ کچھ لوگ اس کے جواز کے قائل ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کسی بھی مسلمان سے یہ بات مخفی نہیں رہنی چاہیے کہ دین حنیف اسلام کا سب سے اہم رکن ہے، یہ گواہی دینا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ لا الہ الا اللہ کی شہادت کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ وحدہ کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کی جائے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کی جائے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا طریقہ سکھایا ہے۔ تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ صدقہ فطر ادا کرنا ایک عبادت ہے اور عبادات کے بارے میں اصول یہ ہے کہ یہ توقیفی ہیں، لہذا کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ کوئی بھی عبادت شارع علیہ السلام کے بتائے ہوئے طریقے کے بغیر ادا کرے کہ ان کے بارے میں خود رب کائنات نے یہ فرمایا ہے:

﴿وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٣﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ ﴿٤﴾... سورة النجم

’’اور وہ (پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم) اپنی خواہش سے نہیں بولتے بلکہ وہ (قرآن تو) وحی ہے جو ان کی طرف بھیجی جاتی ہے۔‘‘

اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے:

(من احدث في امرنا هذا ما ليس منه فهو رد) (صحيح البخاري‘ الصلح‘ باب اذا اصطلحوا علي صلح جور...الخ‘ ح: 2697)

’’جو شخص ہمارے اس دین (اسلام) میں کوئی ایسی نئی بات ایجاد کرے جو اس میں سے نہ ہو تو وہ مردود ہے۔‘‘

نیز آپ نے فرمایا:

(من عمل عملا ليس عليه امرنا فهو رد) (صحيح مسلم‘ الاقضية‘ باب نقض الاحكام الباطلة ...الخ‘ ح: 1718)

’’جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس کے بارے میں ہمارا امر نہیں ہے تو وہ (عمل) مردود ہے۔‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر کے بارے میں جو حکم دیا ہے جیسا کہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے وہ یہ کہ کھانے یا جو یا کھجور یا کشمش یا پنیر کا ایک صاع ہو، چنانچہ امام بخاری و مسلم رحمۃ اللہ علیھما نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے:

(فرض رسول الله صلي الله عليه وسلم زكاة الفطر صاعا من تمر او صاعا من شعير علي العبد والحر‘ والذكر والانثي‘ والصغير والكبير من المسلمين‘ وامر بها ان تودي قبل خروج الناس الي الصلاة) (صحيح البخاري‘ الزكاة‘ باب صدقة الفطر‘ 1503‘1504 وصحيح مسلم‘ الزكاة‘ باب زكاة الفطر علي المسلمين...الخ‘ ح: 984)

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکویہ فطر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو ہر غلام، آزاد، عورت، مرد، چھوٹے اور بڑے مسلمان پر فرض قراردیا اور حکم دیا کہ اسے لوگوں کے نماز عید کے لیے نکلنے سے پہلے ادا کر دیا جائے۔‘‘

امام بخاری و مسلم نے حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کی اس روایت کو بھی بیان کیا:

(كنا نطعيها في زمان النبي صلي الله عليه وسلم صاعا من طعام او صاعا من تمر او صاعا من شعير او صاعا من زنيب.وفي رواية.او صاعا من اقط) (صحيح البخاري‘ الزكاة‘ باب صاع من زبيب‘ ح: 1508 وصحيح مسلم‘ الزكاة‘ باب زكاة الفطر علي المسلمين...الخ‘ ح: 985)

’’ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کھانے کا ایک صاع یا کھجور کا ایک صاع یا جو کا ایک صاع یا کشمش کا ایک صاع بطور صدقہ فطر ادا کیا کرتے تھے۔‘‘

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ صدقہ فطر کے بارے میں یہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور یہ بات بھی معلوم ہے کہ اس وقت مسلمانوں میں خاص طور پر مدینہ کے معاشرہ میں دینار اور درہم موجود تھے اور اس وقت یہی کرنسی مروج تھی لیکن صدقہ فطر کے سلسلہ میں آپ نے دینار و درہم کا ذکر نہیں فرمایا۔ اگر انہیں صدقہ فطر میں دینا جائز ہوتا تو آپ یہ ضرور بیان فرما دیتے، کیونکہ ضرورت کے وقت بیان کو مؤخر کرنا جائز نہیں۔ اگر یہ جائز ہوتا تو صحابہ کرام دینار و درہم کی صورت میں بھی ضرور صدقہ فطر ادا فرماتے ۔ جانوروں کی زکوٰۃ میں کمی بیشی کو دینارو درہم سے پورا کرنے کے بارے میں جو آتا ہے تو یہ اس شرط کے ساتھ مشروط ہے جسے ادا کرنا واجب ہو لیکن وہ موجود نہ ہو اور یہ بھی ان صورتوں کے ساتھ مخصوص ہے جن کا احادیث میں ذکر آیا ہے کیونکہ جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے کہ عبادات کے سلسلہ میں اصول یہ ہے کہ یہ توقیفی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں کسی صحابی کے بارے میں یہ علم نہیں کہ انہوں نے نقدی کی صورت میں صدقہ فطر ادا کیا ہو جب کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو سب لوگوں سے زیادہ جانتے بھی تھے اور سنت رسول کے مطابق عمل کرنے کا شوق بھی سب لوگوں سے زیادہ رکھتے تھے۔ اگر انہوں نے نقدی کی صورت میں صدقہ فطر ادا کیا ہوتا تو یہ بھی منقول ہوتا جس طرح ان کے امور شریعت سے متعلق دیگر اقوال و افعال منقول ہیں اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ...٢١﴾... سورة الاحزاب

’’البتہ تحقیق تمہارے لیے (اے مسلمانو!) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں عمدہ نمونہ موجود ہے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّـهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴿١٠٠﴾... سورة التوبة

’’جن لوگوں نے سبقی کی (یعنی سب سے ) پہلے (ایمان لائے) مہاجرین میں سے بھی اور انصا رمیں سے بھی اور جنہوں نے نیکو کاری کے ساتھ ان کی پیروی کی، اللہ ان سے خوش ہے اور وہ اللہ سے خوش ہیں اور اس نے ان کے لےی باغات تیار کئے یں جن کے نیچے نیریں بہہ رہی ہیں (اور) وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔‘‘

جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے اس سے ایک طالب حق کے سامنے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نقدی کی صورت میں صدقہ فطر ادا کرنا جائز نہیں ہے، لہذا جو شخص نقدی کی صورت میں صدقہ فطر ادا کرے گا تو اس کا یہ صدقہ ادا نہیں ہو گا کیونکہ اس کا یہ عمل مذکورہ ادلہ شرعیہ کے خلاف ہے۔ میں اللہ تعالٰی سے یہ دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں اور سب مسلمانوں کو اپنے دین میں فقاہت (سمجھ بوجھ) اور دین پر ثابت قدمی عطا فرمائے اور ہر اس چیز سے بچائے جو اس کی شریعت کے مخالف ہو۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب الجنائر: ج 2 صفحہ 141

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ