سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(127) مکانوں اور مارکیٹوں کے کرایہ کی زکوٰۃ

  • 8666
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1193

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آدمی کے پاس بہت سے مکانات ہیں جنہیں وہ کرایہ پر دے کر سال میں بہت سا مال کماتا ہے ۔ کیا اس پر اس مال کی زکوٰۃ واجب ہے؟ زکوٰۃ کب واجب ہو گی؟ اور کس قدر واجب ہو گی؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب مکان یا دوکان وغیرہ سے حاصل ہونے والے کرایہ پر ایک سال گزر جائے تو اس میں زکوٰۃ واجب ہے، جب کہ وہ نصاب کے مطابق ہو۔ کرایہ سے حاصل ہونے رقم کو اگر سال مکمل ہونے سے پہلے اپنی ضرورتوں پر خرچ کر لیا جائے تو پھر اس میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔ شرح زکویۃ اڑھائی فی صد سالانہ ہے اور اس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے، سونے کا نصاب بیش مثقال ہے سعودی اور افرنگی گنی کے مطابق اس کی مقدار (3/7-11) گنی ہے۔ چاندی کا نصاب ایک سو چالیس مثقال ہے اور اس کی مقدار چاندی کے چھپن سعودی ریال کے برابر ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب الزکاۃ: ج 2  صفحہ 118

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ