سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(50) آخرت كا منكر كافر ہے

  • 838
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 2546

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جو شخص آخرت کی زندگی کا انکار کرے اور کہے کہ یہ قرون وسطیٰ کی خرافات میں سے ہے، اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ آخرت کی زندگی کا انکار کرنے والے لوگوں کو کس طرح قائل کیا جا سکتا ہے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

جو شخص آخرت کی زندگی کا انکار کرے اور اسے قرون وسطیٰ کی خرافات میں سمجھے، وہ کافر ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَقالوا إِن هِىَ إِلّا حَياتُنَا الدُّنيا وَما نَحنُ بِمَبعوثينَ ﴿٢٩ وَلَو تَرى إِذ وُقِفوا عَلى رَبِّهِم قالَ أَلَيسَ هـذا بِالحَقِّ قالوا بَلى وَرَبِّنا قالَ فَذوقُوا العَذابَ بِما كُنتُم تَكفُرونَ ﴿٣٠﴾... سورة الأنعام

’’اور وہ کہتے ہیں کہ ہماری جو دنیا کی زندگی ہے بس یہی (زندگی) ہے اور ہم (مرنے کے بعد) پھر زندہ نہیں کیے جائیں گے۔ اور کاش تم (ان کو اس وقت) دیکھو جب وہ اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے اور وہ فرمائے گا: کیا یہ (دوبارہ زندہ ہونا) برحق نہیں؟ تو وہ کہیں گے: کیوں نہیں! ہمارے پروردگار کی قسم! (بالکل برحق ہے) اللہ فرمائے گا: اب تم اس کفر کے بدلے (جو دنیا میں کرتے تھے) عذاب کے مزے چکھو۔‘‘

اور فرمایا:

﴿وَيلٌ يَومَئِذٍ لِلمُكَذِّبينَ ﴿١٠ الَّذينَ يُكَذِّبونَ بِيَومِ الدّينِ ﴿١١ وَما يُكَذِّبُ بِهِ إِلّا كُلُّ مُعتَدٍ أَثيمٍ ﴿١٢ إِذا تُتلى عَلَيهِ ءايـتُنا قالَ أَسـطيرُ الأَوَّلينَ ﴿١٣ كَلّا بَل رانَ عَلى قُلوبِهِم ما كانوا يَكسِبونَ ﴿١٤ كَلّا إِنَّهُم عَن رَبِّهِم يَومَئِذٍ لَمَحجوبونَ ﴿١٥ ثُمَّ إِنَّهُم لَصالُوا الجَحيمِ ﴿١٦ ثُمَّ يُقالُ هـذَا الَّذى كُنتُم بِهِ تُكَذِّبونَ ﴿١٧﴾... سورة المطففين

’’اس دن جھٹلانے والوں کی تباہی ہے (یعنی) جو انصاف کے دن کو جھٹلاتے ہیں اور اس کو جھٹلاتا وہی ہے جو حد سے نکل جانے والا گناہ گار ہے، جب اس کو ہماری آیتیں سنائی جاتی ہیں تو کہتا ہے یہ تو اگلے لوگوں کے افسانے ہیں، دیکھو! یہ جو (اعمال بد) کرتے ہیں، ان کا ان کے دلوں پر زنگ بیٹھ گیا ہے۔ بے شک یہ لوگ اس روز اپنے پروردگار (کے دیدار) سے اوٹ میں ہوں گے، پھر دوزخ میں جا داخل ہوں گے، پھر ان سے کہا جائے گا کہ یہ وہی چیز ہے جسے تم جھٹلاتے تھے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿بَل كَذَّبوا بِالسّاعَةِ وَأَعتَدنا لِمَن كَذَّبَ بِالسّاعَةِ سَعيرًا ﴿١١﴾... سورة الفرقان

’’بلکہ یہ تو قیامت ہی کو جھٹلاتے ہیں اور ہم نے قیامت کو جھٹلانے والوں کے لیے دوزخ کو تیار کر رکھا ہے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿وَالَّذينَ كَفَروا بِـٔايـتِ اللَّهِ وَلِقائِهِ أُولـئِكَ يَئِسوا مِن رَحمَتى وَأُولـئِكَ لَهُم عَذابٌ أَليمٌ ﴿٢٣﴾... سورة العنكبوت

’’اور جن لوگوں نے اللہ کی آیتوں سے اور اس کی ملاقات سے انکار کیا وہ میری رحمت سے ناامید ہوگئے ہیں اور ان کو درد دینے والا عذاب ہوگا۔‘‘

منکرین آخرت کو درج ذیل طریقوں سے قائل کی جاسکتا ہے:

٭             سابقہ تمام الٰہی کتابوں اور آسمانی شریعتوں میں تمام انبیائے کرام ومرسلین عظام سے بعث بعد الموت کا معاملہ تواتر سے منقول ہے، جسے تمام امتوں نے قبول کیا ہے، لہٰذا تم اس کا کیونکر انکار کرتے ہو؟ جبکہ تم فلسفیوں، اصولیوںیا مفکر وں یا صاحب اصول ومبادی سے منقول کلام کی تصدیق کرتے ہو، اگرچہ ان کی بات کسی بھی ذریعے سے پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی نہ تو وسائل نقل کی بنیادپر اور نہ ہی امر واقع کی بنیادپر جس قدر بعث بعد الموت کی خبر پہنچتی ہے۔

٭             بعث بعدالموت کے امکان کی تو عقل بھی شاہد ہے اور عقل کی شہادت کئی طرح سے ہے:

۱۔            کوئی بھی اس بات کا منکر نہیں ہے کہ وہ عدم کے بعد پیدا ہوا ہے بلاشبہ پہلے کبھی اس کا ذکر تک نہ تھا اور پھر اسے وجود بخشا گیا ہے تو جس ذات گرامی نے اسے پیدا کیا اور عدم سے وجود بخشا، وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ اسے مرنے کے بعد دوبارہ پیدا فرما دے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَهُوَ الَّذى يَبدَؤُا۟ الخَلقَ ثُمَّ يُعيدُهُ وَهُوَ أَهوَنُ عَلَيهِ...﴿٢٧﴾... سورة الروم

’’اور وہی تو ہے جو خلقت کو پہلی دفعہ پیدا کرتا ہے پھر اسے دوبارہ پیدا کرے گا اور یہ اس کے لیے بہت آسان ہے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿كَما بَدَأنا أَوَّلَ خَلقٍ نُعيدُهُ وَعدًا عَلَينا إِنّا كُنّا فـعِلينَ ﴿١٠٤﴾... سورة الأنبياء

’’جس طرح ہم نے (کائنات کو) پہلے پیدا کیا تھا، اسی طرح ہم دوبارہ پیدا کر دیں گے۔ (یہ) ہمارے ذمے وعدہ ہے (جس کا پورا کرنا لازم ہے) بے شک ہم ایسا ضرور کرنے والے ہیں۔‘‘

۲۔           کوئی شخص بھی اس بات کا انکار نہیں کر سکتا کہ آسمان اور زمین میں کتنی بڑی بڑی مخلوقات ہیں اور ان کا نظام کتنا محیر العقول ہے، جس ذات پاک نے اتنی بڑی بڑی مخلوقات کو پیدا کیا، وہ انسانوں کو پیدا کرنے اور انہیں مارنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنے پر بدرجہ أولیٰ قادر ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿لَخَلقُ السَّمـوتِ وَالأَرضِ أَكبَرُ مِن خَلقِ النّاسِ...﴿٥٧﴾... سورة غافر

’’آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا لوگوں کے پیدا کرنے کی نسبت بڑا (کام) ہے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿أَوَلَم يَرَوا أَنَّ اللَّهَ الَّذى خَلَقَ السَّمـوتِ وَالأَرضَ وَلَم يَعىَ بِخَلقِهِنَّ بِقـدِرٍ عَلى أَن يُحـِۧىَ المَوتى بَلى إِنَّهُ عَلى كُلِّ شَىءٍ قَديرٌ ﴿٣٣﴾... سورة الأحقاف

’’کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ جس اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور وہ ان کے پیدا کرنے سے تھکا تک نہیں، وہ اس (بات) پر بھی قادر ہے کہ مردوں کو زندہ کردے؟ ہاں یقینا وہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘

 اور فرمایا:

﴿أَوَلَيسَ الَّذى خَلَقَ السَّمـوتِ وَالأَرضَ بِقـدِرٍ عَلى أَن يَخلُقَ مِثلَهُم بَلى وَهُوَ الخَلّـقُ العَليمُ ﴿٨١ إِنَّما أَمرُهُ إِذا أَرادَ شَيـًٔا أَن يَقولَ لَهُ كُن فَيَكونُ ﴿٨٢﴾... سورة يس

’’بھلا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، کیا وہ اس بات پر قادر نہیں کہ (ان کو پھر) ویسے ہی پیدا کر دے؟ کیوں نہیں، وہ تو بڑا پیدا کرنے والا (اور) علم والا ہے۔ اس کی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے فرماتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتی ہے۔ ‘‘

۳۔           آنکھوں والا ہر شخص یہ مشاہدہ کرتا ہے کہ زمین بنجر اور مردہ ہو چکی ہوتی ہے لیکن جب اس پر بارش برستی ہے، تو وہ سرسبز وشاداب ہو جاتی ہے اور بنجر و مردہ زمین میں پھر سے نباتات اگنے لگتی ہیں۔ جو ذات مردہ زمین کو دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہے وہ مردہ انسانوں کو بھی دوبارہ زندہ کر کے اٹھانے پر قادر ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَمِن ءايـتِهِ أَنَّكَ تَرَى الأَرضَ خـشِعَةً فَإِذا أَنزَلنا عَلَيهَا الماءَ اهتَزَّت وَرَبَت إِنَّ الَّذى أَحياها لَمُحىِ المَوتى إِنَّهُ عَلى كُلِّ شَىءٍ قَديرٌ ﴿٣٩﴾... سورة فصلت

’’اور (اے بندے!) اس کی (قدرت کی) نشانیوں میں سے ہے کہ تو زمین کودبی ہوئی (خشک اور بنجر) دیکھتا ہے، پھر جب ہم اس پر پانی برسا دیتے ہیں تو شاداب ہو جاتی ہے اور پھوٹنے لگتی ہے۔ بلا شبہ وہ اللہ جس نے زمین کو زندہ کیا وہی مردوں کو زندہ کرنے والا ہے۔ بے شک وہ ہر چیز پر خوب قادر ہے۔‘‘

*             بعث کے امکان کا حسی اور واقعاتی طور پر مشاہدہ بھی کیا جا چکا ہے اور اللہ تعالیٰ نے مردوں کو دوبارہ زندہ کر دینے کے کئی واقعات بیان فرمائے ہیں۔ سورۃ البقرہ میں اس سلسلے میں پانچ واقعات بیان کیے گئے ہیں جن میں سے بطور مثال ایک واقعہ حسب ذیل ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿أَو كَالَّذى مَرَّ عَلى قَريَةٍ وَهِىَ خاوِيَةٌ عَلى عُروشِها قالَ أَنّى يُحيۦ هـذِهِ اللَّهُ بَعدَ مَوتِها فَأَماتَهُ اللَّهُ مِا۟ئَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ قالَ كَم لَبِثتَ قالَ لَبِثتُ يَومًا أَو بَعضَ يَومٍ قالَ بَل لَبِثتَ مِا۟ئَةَ عامٍ فَانظُر إِلى طَعامِكَ وَشَرابِكَ لَم يَتَسَنَّه وَانظُر إِلى حِمارِكَ وَلِنَجعَلَكَ ءايَةً لِلنّاسِ وَانظُر إِلَى العِظامِ كَيفَ نُنشِزُها ثُمَّ نَكسوها لَحمًا فَلَمّا تَبَيَّنَ لَهُ قالَ أَعلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَىءٍ قَديرٌ ﴿٢٥٩﴾... سورة البقرة

’’یا اسی طرح اس شخص کو (نہیں دیکھا؟) جس کا ایک ایسے گاؤں سے گزر ہوا جو اپنی چھتوں پر گرا پڑا تھا، تو اس نے کہا کہ اللہ اس (کے باشندوں) کو مرنے کے بعد کیونکر زندہ کرے گا؟ تب اللہ نے اس کی روح قبض کر لی (اور) سو برس تک( اس کو مردہ رکھا) پھر اس کو زندہ اٹھایا اور پوچھا تم کتنا عرصہ (مرے) رہے؟ اس نے جواب دیا کہ ایک دن یا اس سے بھی کم۔ اللہ نے فرمایا: (نہیں) بلکہ تم سو برس (مرے) رہے ہو اور اپنے کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھو کہ (اتنی مدت میں مطلق سڑی) بسی نہیں اور اپنے گدھے کو بھی دیکھو (جو مرا پڑا ہے) غرض (ان باتوں سے) یہ ہے کہ ہم تم کو لوگوں کے لیے (اپنی قدرت کی) نشانی بنائیں اور (ہاں گدھے کی) ہڈیوں کو دیکھو کہ ہم ان کو کیونکر جوڑ دیتے ہیں اور ان پر (کس طرح) گوشت پوست چڑھا دیتے ہیں۔ پھر جب یہ واقعات اس کے مشاہدے میں آئے تو بول اٹھا کہ میں یقین کرتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘

*             حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ موت کے بعد دوبارہ اٹھایا جائے تاکہ ہر انسان کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا جائے اور اگر ایسا نہ ہو تو پھر انسانوں کو پیدا کرنا عبث اور بے فائدہ ہے، جس میں کوئی حکمت نہیں کیونکہ ایسی زندگی کے اعتبار سے تو انسانوں اور حیوانوں میں کوئی فرق ہی نہیں رہ جاتا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿أَفَحَسِبتُم أَنَّما خَلَقنـكُم عَبَثًا وَأَنَّكُم إِلَينا لا تُرجَعونَ ﴿١١٥ فَتَعـلَى اللَّهُ المَلِكُ الحَقُّ لا إِلـهَ إِلّا هُوَ رَبُّ العَرشِ الكَريمِ ﴿١١٦﴾... سورة المؤمنون

’’کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ہم نے تم کو بے فائدہ پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹ کر نہیں آؤ گے؟ تو اللہ جو سچا بادشاہ ہے اس کی شان سب سے اونچی ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی عرش بزرگ کا مالک ہے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿إِنَّ السّاعَةَ ءاتِيَةٌ أَكادُ أُخفيها لِتُجزى كُلُّ نَفسٍ بِما تَسعى ﴿١٥﴾... سورة طه

’’قیامت یقینا آنے والی ہے، میں چاہتا ہوں کہ اس (کے وقت) کو پوشیدہ رکھوں تاکہ ہر شخص جو کوشش کرے اس کا بدلہ پائے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿وَأَقسَموا بِاللَّهِ جَهدَ أَيمـنِهِم لا يَبعَثُ اللَّهُ مَن يَموتُ بَلى وَعدًا عَلَيهِ حَقًّا وَلـكِنَّ أَكثَرَ النّاسِ لا يَعلَمونَ ﴿٣٨ لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذى يَختَلِفونَ فيهِ وَلِيَعلَمَ الَّذينَ كَفَروا أَنَّهُم كانوا كـذِبينَ ﴿٣٩ إِنَّما قَولُنا لِشَىءٍ إِذا أَرَدنـهُ أَن نَقولَ لَهُ كُن فَيَكونُ ﴿٤٠﴾... سورة النحل

’’اور یہ اللہ کی سخت قسمیں کھاتے ہیں کہ جو مر جاتا ہے اللہ اسے (قیامت کے دن قبر سے) نہیں اٹھائے گا، کیوں نہیں! یہ اس کے ذمے سچا وعدہ ہے جو اسے ضرور پورا کرنا ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے، تاکہ جن باتوں میں یہ ا ختلاف کرتے ہیں وہ ان پر ظاہر کر دے اور اس لیے کہ کافر جان لیں کہ وہ جھوٹے تھے۔ جب ہم کسی چیز کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے لیے ہمارا صرف یہی قول ہوتا ہے کہ ہم اس سے کہتے ہیں: ہو جا! تو وہ ہو جاتا ہے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿زَعَمَ الَّذينَ كَفَروا أَن لَن يُبعَثوا قُل بَلى وَرَبّى لَتُبعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِما عَمِلتُم وَذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسيرٌ ﴿٧﴾... سورة التغابن

’’جو لوگ کافر ہیں ان کا اعتقاد ہے کہ وہ (دوبارہ) ہرگز نہیں اٹھائے جائیں گے (اے نبی!) کہہ دو کیوں نہیں، میرے پروردگار کی قسم! تم ضرور اٹھائے جاؤ گے، پھر جو کام تم کرتے رہے ہو وہ تمہیں بتائے جائیں گے اور یہ (بات) اللہ کے لیے نہایت آسان ہے۔‘‘

اگر منکرین بعث بعد الموت کے سامنے یہ دلائل بیان کر دیے جائیں اور پھر بھی وہ اپنے انکار پر اصرار کریں تو وہ جھگڑا لو، ضدی اور ہٹ دھرم ہیں اور یہ ظالم عنقریب جان لیں گے کہ وہ کون سی جگہ لوٹ کر جائیں گے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

 

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ102

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ