سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(100) مردہ نفع نہیں پہنچا سکتا اور نہ سن کر نفع اٹھا سکتا ہے

  • 8639
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1339

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا مُردہ سلام اور کلام کو سنتا اور اس کے پاس جو کیا جائے اسے سمجھتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس مسئلہ میں اہل علم و سنت کا اختلاف ہے۔ صحیح حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(ان العبد اذا وضع في قبره‘ وتولي عنه اصحابه‘ انه ليسمع قرع نعالهم) (صحيح البخاري‘ الجنائز‘ باب الميت يسمع خفق النعال‘ ح: 1338 وصحيح مسلم‘ الجنة‘ باب عرض مقعد الميت من الجنة...الخ‘ ح: 2870 واللفظ له)

’’بلاشبہ بندے کو قبر میں رکھ دیا جاتا ہے (دفن کر دیا جاتا ہے) اور اسے دفن کرنے والے آ رہے ہوتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز کو سنتا ہے۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے:

(ما من عبد يمر علي قبر رجل يعرفه في الدنيا ريسلم عليه الا عرفه ورد عليه السلام) (العلل المتناهية: 429/2‘ ح: 1523 والاستذكار لابن عبدالبر‘ ح: 234/1)

’’جب کوئی (مسلمان) بندی کسی ایسے (مسلمان) آدمی کی قبر کے پاس سے گزرتا ہے، جسے وہ دنیا میں جانتا ہے اور اسے سلام کہتا ہے تو وہ (قبر والا) اسے پہچان لیتا ہے اور اس کے سلام کا جواب دیتا ہے۔‘‘

اس حدیث کو ابن عبدالبر نے صحیح کہا ہے اور ابن قیم نے اسے "کتاب الروح" میں ذکر کیا  اور اس پر کوئی تعاقب نہیں کیا۔۔۔

اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قبرستان تشریف لے جاتے تو فرماتے:

(السلام عليكم دار قوم مومنين) (صحيح مسلم‘ الجنائز‘ باب ما يقال عند دخول القبور...الخ‘ ح: 974)

’’اے مومنوں کے گھر والو! تم پر سلامتی ہو۔‘‘

بہرحال میت خواہ سنتی بھی ہو وہ کسی دوسرے کو نفع نہیں پہنچا سکتی یعنی اگر کسی کی قبر کے پاس آ کر اللہ تعالیٰ سے دعاء کرین (تو بھی) یہ نا ممکن ہے کہ میت آپ کو کوئی نفع پہنچا سکے اور نہ میت اس صورت میں کوئی نفع پہنچا سکتی ہے کہ آپ اس سے دعا کریں۔۔۔ کسی کی قبر کے پاس اس اعتقاد کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا کہ اس سے اللہ تعالیٰ دعا کو سن لیتا ہے یہ جھوٹ اور بدعت ہے۔ جبکہ کسی صاحب قبر کو پکارنا اور خاص اسی ہی سے دعا کرنا ایسا شرک اکبر ہے کہ جس کا مرتکب ملت اسلامیہ سے خارج ہو جاتا ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب الجنائر: ج 2  صفحہ 98

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ