سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(89) میت کا ساتواں یا چالیسواں

  • 8628
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1245

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک مسلمان فوت ہوا جس کے بہت سے بچے ہیں اور اس نے ان کے لیے مال بھی بہت چھوڑا ہے تو کیا وہ اس کی طرف سے ساتوین یا چالیسویں دن روٹی اور گوشت وغیرہ کی دعوت کر سکتے ہیں تاکہ اس کے ایصال ثواب کے لیے مسلمانوں کو جمع کر کے کھانا کھلا دیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

میت کی طرف سے صدقہ کرنا درست ہے۔ فقرا و مساکین کو کھانا کھلانا، پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک اور مسلمانون کی عزت افزائی کرنا بلا شبہ نیکی کے وہ کام ہیں جن کی شریعت نے ترغیب دی ہے لیکن میت کے لیے اس کی وفات کے دن یا کسی معین مثلا ساتوین یا چالیسوین دن بکری یا گائے یا اونٹ یا پرندوں وغیرہ کو ذبح کر کے دعوت کا اہتمام کرنا بدعت ہے۔ اسی طرح میت کی طرف سے صدقہ کرنے کے لیے بھی کسی دن یا رات کو معین کرنا مثلا جمعرات کا دن، جمعہ کا دن یا جمعی کی رات وغیرہ تو یہ بدعت ہے۔ سلف صالح میں اس طرح کا کوئی رواج نہ تھا، لہذا اس قسم کی بدعتوں کو ترک کر دینا واجب ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

(من احدث في امرنا هذا ما ليس منه فهو رد) (صحيح البخاري‘ الصلح‘ باب اذا اصطلحوا علي صلح جور...الخ‘ ح: 2697)

’’جو شخص ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی چیز پیدا کرے جو اس میں سے نہ ہو تو وہ مردود ہے۔‘‘

اسی طرح آپ نے یہ بھی فرمایا ہے:

(اياكم و محدثات المور‘ فان كل محدثه بدعة‘ وكل بدعة ضلالة) (سنن ابي داود‘ السنة‘ باب في لزوم السنة‘ ه: 4607‘ واصله في صحيح مسلم)

’’اپنے آپ کو (دین میں) نئی نئی باتیں پیدا کرنے سے بچاؤ، کیونکہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب الجنائر: ج 2  صفحہ 88

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ