سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(86) دفن کے بعد قبر پر قرآن خوانی

  • 8625
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1150

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میت کو دفن کرنے کے بعد قبر پر قرآن خوانی کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اور مُردوں پر رحمت کے لیے ہم جو اپنے گھروں میں لوگوں کو اجرت دے کر پڑھاتے ہیں، اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اہل علم کا راجح قول یہ ہے کہ دفن کے بعد قبر پر قرآن خوانی بدعت ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اس کا کوئی رواج نہ تھا۔ آپ نے اس کا حکم دیا نہ خود ایسا کیا بلکہ زیادہ سے زہادہ جو ثابت ہے وہ یہ کہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام دفن کے بعد قبر کے پاس کھڑے ہو کر فرماتے:

(استغفروا لاخيكم واسالوا له بالتثبيت فانه الان يسال) (سنن ابي داود‘ الجنائز‘ باب الاستغفار عند القبر... الخ‘ ح: 3221)

’’اپنے بھائی کے لیے مغفرت اور ثابت قدمی کی دعا کرو، کیونکہ اب اس سے سوال پوچھے جائیں گے۔‘‘

اگر قبر کے پاس قرآن خوانی حکم شریعت ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ضرور اس کا حکم دیتے تاکہ امت کو یہ حکم شریعت معلوم ہو جاتا۔ اسی طرح کسی میت کی روح کے ایصال ثواب کے لیے گھروں میں جمع ہو کر قرآن خوانی کی بھی کوئی دلیل نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سلف صالح رحمۃ اللہ علیہ بھی ایسا نہیں کیا کرتے تھ۔ مسلمان کے لیے حکم شریعت یہ ہے کہ جب اسے کوئی مصیبت پہنچے تو صبر کرے، اللہ تعالیٰ سے اجروثواب کی امید رکھے اور زبان سے وہ کلمات کہے جو صبر کرنے والوں کا شعار ہے یعنی یہ کہے:

(انا لله وانا اليه راجعون‘ اللهم اجرني! في مصيبتي واخلف لي خيرا منها) (صحيح مسلم‘ الجنائز‘ باب ما يقال عند المصيبة؟‘ ح: 918)

’’بے شک ہم سب اللہ ہی کی ملکیت ہیں اور ہم سب اس کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ اے اللہ! میری اس مصیبت کا مجھے اجر دے اور اس کے عوض مجھے بہتر بدل عطا فرما۔‘‘

اہل میت کے ہاں اجتماع کرنا، قرآن خوانی کرنا، کھانے تیار کرنا اور اس طرح کے دیگر تمام امور بدعت ہیں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب الجنائر: ج 2  صفحہ 86

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ