سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(73) عورت کے لیے زیارت قبور کیوں ممنوع ہے؟

  • 8612
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1684

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عورتوں کو زیارت قبور سے روکنے میں کیا حکمت ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بلاشبہ عورت کو زیارت قبور کی اجازت نہیں بلکہ اہل علم کے راجح قول کے مطابق حرام بلکہ کبیرہ گناہ ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے اور لعنت کبیرہ گناہ ہی پر ہو سکتی ہے، اسی لیے اہل علم نے کبیرہ گناہ کی ایک یہ علامت بھی بیان کی ہے کہ اس پر لعنت کی گئی ہو، کیونکہ لعنت ایک بڑی سزا ہے اور بڑی سزا بڑے گناہ ہی کی ہوتی ہے۔

عورت قبرستان کے پاس سے گزر رہی ہو اور وہ کھڑی ہو جائے کہ اصحاب قبور کے لیے دعا کر دے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ حرج اس میں ہے کہ وہ زیارت قبور ہی کے ارادہ سے اپنے گھر سے نکلے تو یہ حرام ہے۔

اس میں حکمت یہ ہے کہ عورتوں کے زیارت قبور میں کئی خرابیاں ہیں مثلا یہ کہ عورت کمزور ارادے مگر شدید جذبات کی حامل (بہت ہی شفیق) ہوتی ہے لہذا ہو سکتا ہے کہ وہ جب اپنے کسی قریبی عزیزمثلا ماں یا باپ کی قبر کی زیارت کرے تو اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور رونا دھونا، چیخنا پکارنا اور نوحہ کرنا شروع کر دے تو اس سے اس کے ایمان اور جان دونوں کو نقصان پہنچے گا۔

اس میں ایک یہ حکمت بھی ہے کہ قبرستان عموما لوگوں سے خالی ہوتے ہیں، لہذا عورت کے تن تنہا قبرستان میں جانے میں یہ اندیشہ بھی ہے کہ یہ فاسق و فاجر لوگوں کے ہتھے چرح کر کسی ایسی حرکت کا شکار نہ ہو جائے جس کا انجام اھا نہ ہو۔

اس میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ عورت ارادے کی کمزوری اور جذبات کی تیزی کے باعث زیارت قبور کو اپنا معمول بنا لے گی جس کی وجہ سے یہ قبرستان آنے جانے ہی میں مصروف رہے گی اور دین و دنیا کی کئی مصلحتوں اور حکمتوں کو ضائع کر بیٹھے گی۔

اگر اس ممانعت میں اور کوئی حکمت نہ بھی ہو تو بس یہی کافی ہے کہ قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے اور یہی (لعنت) قبروں کی زیارت سے رکنے اور دور رہنے کے لیے کافی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں جس کام سے اپنی کتاب میں یا اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی منع فرما دیں، تو اس میں ہمارے لیے کوئی خیر و بھلائی نہیں ہوتی۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب الجنائر: ج 2  صفحہ76

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ