سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(49) میت کو رات کے وقت دفن کرنا

  • 8588
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 2160

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر کسی میت کا انتقال آدمی رات سے پہلے یا بعد میں ہو تو کیا اسے رات کو دفن کرنا جائز ہے یا ضروری ہے کہ طلوع فجر کے بعد ہی دفن کیا جائے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

میت کو رات کے وقت دفن کرنا بھی جائز ہے، کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک انسان فوت ہو گیا جس کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی عیادت فرمایا کرتے تھے، اس کا انتقال رات کو ہوا اور رات ہی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے اسے دفن کر دیا، صبح ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے بارے میں بتایا تو آپ نے فرمایا:

(ما منعكم ان تعلموني) (صحيح البخاري‘ الجنائز‘ باب الاذن بالجنازة‘ ح: 1247)

’’مجھے کیوں نہ بتایا۔‘‘

صحابہ نے عرض کیا:’’رات کا وقت تھا، اندھیرا بھی تھا، ہم نے پسند نہ کیا کہ آپ کو تکلیف دیں تو آپ اس کی قبر پر تشریف لے گئے اور اس کا جنازہ پڑھا۔‘‘

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ نے اس بات پر اعتراض نہیں کیا کہ اسے رات کے وقت دفن کیوں کیا گیا ہاں البتہ آپ نے اس پر ضرور اعتراض فرمایا کہ آپ کو رات کے وقت ہی کیوں نہ بتایا گیا اور صبح کیوں بتایا ہے؟ جب اس سلسلہ میں صحابہ کرام نے عذر پیش کیا تو آپ نے ان کے عذر کو قبول فرما لیا۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’کچھ لوگوں نے قبرستان میں آگ دیکھی تو اس کے پاس آ گئے اور یہاں آ کر کیا دیکھتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں کھڑے فرما رہے ہیں۔‘‘

(ناولوني صاحبكم) (سنن ابي داود‘ الجنائز‘ في الدفن بالليل‘ ح: 3164)

’’یہ اپنا ساتھی مجھے پکڑاؤ۔‘‘

یہ وہ صحابی تھے جو بلند آواز سے ذکر کیا کرتے تھے اور یہ تدفین بھی رات کے وقت عمل میں آئی تھی جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں نے قبرستان میں آگ دیکھی۔۔۔ الخ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین بھی رات کے وقت عمل میں آئی تھی جیسا کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت بیان فرمائی ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین کا علم اس وقت ہوا جب ہم نے (بدھ کی) رات کے آخری پہر ’’مساحی‘‘ کی آواز سنی۔[1] مساحی ان آلات کو کہتے ہیںم جن کے ساتھ مٹی کو کھودا یا کھرچا جاتا ہے۔ اسی طرح ابوبکر[2]، عثمان[3]، عائشہ[4] اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ[5]، کو بھی رات ہی کے وقت دفن کیا گیا تھا۔

وہ روایت جس سے معلوم ہوتا ہے کہ رات کے وقت دفن کرنا مکروہ ہے، وہ اس پر محمول ہے کہ کسی کو کم حیثیت سمجھتے ہوئے جلد بازی کے ساتھ راتوں رات دفن کر دیا جائے اور صبح تک لوگوں کو بھی نہ بتایا جائے تاکہ وہ اس کے جنازہ میں شریک ہی نہ ہو سکیں یا وہ اس لیے رات کو دفن کے لیے جلد بازی کا مظاہرہ کریں کہ انہوں نے کفن اچھا نہ دیا ہو اور اسے چھپانے کے لیے وہ جلد بازی سے کام لیتے ہوئے اسے رات ہی کو دفن کر دیں، چنانچہ اس سے منع کر دیا گیا ہے۔ یا ممانعت کی روایت کو اس بات پر محمول کیا جائے گا کہ افضل یہ ہے کہ دن کے وقت دفن کیا جائے تاکہ نماز جنازہ میں زیادہ سے زیادہ مسلمان شریک ہو سکیں۔ جنازہ کے ساتھ جانے والوں، تدفین میں شرکت کرنے والوں اور سنت کے مطابق لحد بنانے والوں کے لیے بھی اسی میں زیادہ سہولت ہے کہ تدفین کا عمل دن کے وقت سر انجام دیا جائے بشرطیکہ کوئی ایسی ضرورت نہ ہو جو جلد تدفین کی متقاضی ہو لیکن یاد رہے کہ زیادہ واجب یہی بات ہے کہ تدفین میں جلدی کی جائے خواہ رات کا وقت ہی کیوں نہ ہو۔


[1] مسند احمد:62/6-242

[2] صحيح البخاري‘ الجنائز‘ باب موت يوم الاثنين‘ حديث: 1387 و مصنف ابن ابي شيبة: 346/3

[3] مصنف ابن ابي شيبة 346/3

[4] اسد الغابة 5/5 والبداية والنهاية 97/8

[5] مصنف ابن ابي شيبة 346/3

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب الجنائر: ج 2  صفحہ 58

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ